پاکستان
26 جولائی ، 2016

انڈونیشیا میں پاکستانی کو ناکردہ گناہوں پر سزائے موت کا حکم

انڈونیشیا میں پاکستانی کو ناکردہ گناہوں پر سزائے موت کا حکم

 


انڈونیشیا میں پاکستانی شہری کو ناکردہ گناہوں پر سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا ، بھارتی شہری نے ذوالفقار علی پر ہیروئن اسمگل کرنے کا الزام لگایا ، پھر الزام واپس لے لیا ۔


برطانوی انسانی حقوق تنظیم نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔ پاکستانی دفترخارجہ کی جانب سے سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے پاکستانی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انڈونیشیا میں اپنے شہری کو منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں دی جانے والی سزائے موت کو رکوانے کی کوشش کرے۔


انڈونیشیا میں قید 52 سالہ پاکستانی شہری ذوالفقار علی کو پیر 25 جولائی کے روز جاوا جزیرے پر ایک جیل میں منتقل کر دیا گیا، جہاں اسے سزائے موت دے دی جائے گی۔


انڈونیشیا کے حکام نے پاکستان کو مطلع کیا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد ہر صورت میں کیا جائے گا۔ اس مجرم کے اہل خانہ کے مطابق انہیں بتایا گیا ہے کہ جلد ہی ذوالفقار علی کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کر دیا جائے گا۔


جاوا جزیرے میں نوساکامبانگن نامی جیل میں موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور اب ذوالفقار علی کو اسی جیل میں پہنچا دیا گیا ہے۔


حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے علی پر جرم ثابت ہونے اور پوری عدالتی کارروائی پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ علی سے اعتراف جرم کے لیے اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس پر چلایا جانے والا مقدمہ شفاف نہیں تھا۔


جسٹس پراجیکٹ پاکستان (JPP) نامی غیر سرکاری تنظیم کے قانونی امور کی ڈائریکٹر مریم حق کے مطابق، ’’اسے بے انتہا تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بنیادی قانونی حقوق مہیا نہیں کیے گئے۔ علی کے مجرم ہونے کے مقابلے میں بے گناہ ہونے سے متعلق زیادہ مضبوط شواہد اور دلائل موجود ہیں۔


اس سے قبل جکارتہ میں تعینات پاکستان کے نائب سفیر سید زاہد رضا نے کہا،’پاکستانی ایمبیسی نے اعلیٰ حکام کو ہر طرح سے بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک شفاف مقدمہ نہیں تھا۔‘


انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ علی کو سن 2005ء میں پہلی مرتبہ ہیروئن رکھنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی، تاہم اس سے اعتراف جرم کے لیے اسے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔


ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق چھ بچوں کے باپ علی کو 21 نومبر 2004ء کو مغربی جاوا صوبے میں اس کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا اور اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس کے پاس تین سو گرام ہیروئن تھی۔


ایمنسٹی کے مطابق گرفتاری کے بعد قریب ایک ماہ تک اسے کسی وکیل سے رابطہ نہیں کرنے دیا گیا۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ دوران تفتیش اسے لاتیں اور گھونسے مارے گئے اور قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور اس پر عقوبت کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا، جب اس سے ایک بیان حلفی پر دستخط نہ کرا لیے گئے۔


ایمنسٹی کے بیان کے مطابق اس تشدد کی وجہ سے بعد میں علی کو معدے اور گردوں کے آپریشن سے بھی گزرنا پڑا۔ ’اس مقدے کے دوران علی نے ججوں کو کئی مرتبہ اس تشدد کے بارے میں بتایا ، مگر ججوں نے اس کے بیان حلفی کو اس کا اعتراف جرم ہی سمجھا۔ اس سلسلے میں اس پر عائد کیے گئے الزامات کی کوئی آزادانہ تفتیش نہیں کرائی گئی۔‘


گزشتہ برس انڈونیشیا نے 14 افراد کو منشیات سے متعلق جرائم میں دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کیا اور ان افراد میں زیادہ تر غیرملکی شہری تھے۔

مزید خبریں :