بلاگ
04 نومبر ، 2016

اسموگ کی حقیقت اور بچاؤ کی تدابیر

اسموگ کی حقیقت اور بچاؤ کی تدابیر

اسموگ ہمارے یہاں ایک نیا لفظ ہے لیکن یورپ امریکا، چین، بھارت اور بعض افریقی ممالک میں کئی سالوں سے سنا جا رہا ہے اور اس حوالے سے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

گزشتہ تین دنوں سے لاہور اور وسطی پنجاب کے متعدد شہر اسموگ یا آلودہ دھند کی لپیٹ میں ہیں ۔ایک آدھ دن تک تو اس کو دھند ہی سمجھا جاتا رہا اور سردی کی آمد کا اعلان سمجھ کر گرم کپڑے نکالنے شروع کر دئیے لیکن جب سردی کا احساس ہونے کے بجائے آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ہوا تو ایسا لگا کہ لاہور کا ہر شہری ابھی ابھی رو دے گا جبکہ بعض سرخ آنکھوں کے ساتھ ساتھ کھانس بھی رہے تھے ۔تب معلوم ہو کہ سردی کی آمد نہیں بلکہ آلودگی کا حملہ ہے۔

’اسموگ‘ ، ’فوگ‘یعنی دھند اوراسموک مطلب دھویں سے ماخوذ ایک اصطلاح ہے۔ اس کی ظاہری شکل لاہور اور گرد و نواح کے شہری اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اردو میں ہم اسے گرد آلود دھند یا آلودہ دھند بھی کہہ سکتے ہیں۔

کیمیائی طور پر اس میں صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں کا دھواں، کسی بھی چیز کے جلانے سے نکلنے والا دھواں مثلاً بھٹوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہوتا ہے ۔اسموگ کی وجہ سے اوزون کی مقدار فضا میں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے-

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ا سموگ خطرناک ہے یا نہیں تو جناب اسموگ بہت خطرناک ہے- اسموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیز کو نقصان پہنچاتی ہے۔ چین میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں افرادا سموگ کی وجہ سے جان ہار بیٹھتے ہیں۔ وہاں 17 فیصد اموات اسموگ کی وجہ سےہوتی ہیں۔

ا سموگ میں زیادہ وقت گزارنے سے مختلف طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جیسا کہ سانس لینے میں دشواری، کھانسی یا گلے اور سینے میں جلن۔ صرف چند گھنٹوں میں ہی اسموگ آپ کے پھیپھڑوں کی داخل ہو کر جلن پیدا کر سکتی ہے تاہم اگر جلن نہ بھی ہو تو یہ آپ کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔

اسموگ میں سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص طور پر گہرے سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ دمے کے مریض ہیں تو اسموگ میں جانا آپ کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات گہری اسموگ میں زہریلے مادے آنکھوں میں جلن اور جبھن پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو سکتی ہیں اور آنسو بہہ سکتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے اخبارات کے ذریعے احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت دی ہے جس کے مطابق حتیٰ المقدور کوشش کریں کہ گھر سے باہر کھلی فضاء میں نہ نکلیں۔ اگر گھر سے باہر نکلنا ہو تو علی الصبح نکلیں -کھلی فضا میں ماسک کا استعمال کریں، کھلی فضا سے واپسی پر آنکھوں اور ناک کو پانی سے دھویں۔ نومولود اور کم عمربچوں کو کھلی فضا میں لے جانے سے روکیں ۔دمہ، دل اور پھیپھڑوں کے مریضوں کا خاص خیال رکھیں بھاری کام کرنے سے پرہیز کریں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی ہدایت پر 20 رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس نے اسموگ کے بارے میں ابتدائی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پنجاب کے متعدد علاقے اسموگ کی لپیٹ میں ہیں۔

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ کئی روز تک بارش ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ مزید براں ڈی جی میٹ کے مطابق یہ دھند دسمبر تک جاری رہ سکتی ہے۔

اسموگ سب سے زیادہ آنکھوں پر اثر انداز ہو رہی ہے جس کی وجہ سے آنکھوں میں جلن اور خارش کاا حساس ہوتا ہے۔خاص طور پر موٹر سائیکل سوار اور کھلے مقامات پر کام کرنے والے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

اسموگ میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر ذرات شامل ہوتے ہیں۔ لاہور اور کراچی میں اب یہی صورتحال پیدا ہورہی ہے اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کچھ عرصے سے کراچی اور لاہور میں آنکھوں کی جلن، سانس میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک اور کان کی بیماریاں اور پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں اور الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔

دو روز قبل جب اس گرد آلود دھند نے لاہور کو اپنی لپیٹ میں لیا تو میں پنجاب یونیورسٹی میں تھا میری آنکھیں جل رہی تھیں اور پانی مسلسل بہ رہا تھا ۔گلے میں خراش محسوس ہو رہی تھی اور حیرت کی بات یہ تھی کہ زیادہ تر لوگ اس کو دھند سمجھ کر نظر انداز کر رہے تھے اور یہی ہماری قوم کا بحیثیت مجوعی مزاج بھی ہے۔ خطرہ ہمارے سامنے ہوتا ہے لیکن ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوتی ہیں لیکن اب ہمیں بہت سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ خطرہ اب ہمارے سروں پر آن پہنچا ہے۔

سوشل میڈیا نے حسب روایت غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کیا اور ساری ذمہ داری بھارت پر ڈال دی کہ بھارت نے کوئی سائنسی تجربہ کیا ہے اور اسموگ بم لاہور پر گرایا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ دہلی بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ کیا اس نے لاہور کے ساتھ ساتھ اپنے دارالحکومت پر بھی بم گرایا ہے؟

حکومت کو اب آلودگی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے اور عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اپنے رویے بدلنے ہوں گے تب جا کر ہم اس خوفناک حد تک خطرناک صورتحال پر قابو پا سکتے ہیں۔

(مصنف سعید پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔)