بلاگ
02 جنوری ، 2017

2016ء کا پاکستان، ایک جائزہ

2016ء کا پاکستان، ایک جائزہ

وقت کیا ہے؟ کب سے ہے اور کب تک رہے گا؟ یہ نہ تو کوئی جانتا ہے اور جان کر ہم کریں بھی کیا؟ سادہ سا جواب ہے کہ وقت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، البتہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اور جب تک ہے بس وہی ہے اس کے بعد کیا ہے، رب کی باتیں تو رب ہی جانے، جب تک مہلت ہے، اسی وقت تک سب بہاریں ہیں،اللہ تعالیٰ نے تو وقت کی قسم کھا کر کہا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔

دو ہزار سولہ بھی رخصت ہوگیا اور ہمارے لئے کئی تلخ وشیریں یادیں چھوڑ گیا، سیاسی لحاظ سے بھی یہ سال خاصا گرم رہا، بعض نام نہاد دانشور حضرات ہر ٹی وی چینل پر ہمیں بس یہی ایک نوید سناتے رہے کہ فوجی بوٹوں کی دھمک اب سنائی دی کہ تب سنائی دی، یہی حال یو ٹرن سیاست دانوں کا تھا جو 2014ء سے جس ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کر رہے تھے اس نے 2016ء بھی گزار دیا، اب ان کے چاہنے والے 2017ء میں بھی انہی سنے سنائے بیانات کو سوشل میڈیا پر نئے ولولے کے ساتھ چلاتے جائیں گے۔

یہ تو پاکستانیوں کے لیے بڑی خبر ہی ہے کہ جنرل راحیل شریف خاموشی سے رخصت ہو گئے، 2 روز پہلے گزشتہ ہوئے برس میں گوادر کا فنکشنل ہونا بھی بہت بڑی خبر ہے اور جب پاکستان کی خوشحالی کے زمانے کے آغاز کا ذکر آئے گا تو 2016ء کا ذکر ضرور آئے گا۔

علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں میری رہائش گاہ کے بالکل قریب گلشن اقبال میں ایسٹر کے روز ہونے والے سانحے میں 70 بےگناہ ہلاک ہنے والے افراد بھی انہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو بقول فیض احمد فیض تاریک راہوں میں مارے گئے، سول اسپتال کوئٹہ میں 69 لوگ خودکش دھماکے کا شکار ہوئے اور پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں دہشت گردی کی کارروائی میں 60اہلکار شہید ہوئے، باچا خان یونیورسٹی میں32 اور درگاہ شاہ نورانی پر خودکش حملہ100 سے زائد زائرین کو لقمۂ اجل بنا گیا۔

دسمبر جاتے جاتے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے میں جنید جمشید سمیت 47 افراد کا تعلق زندگی کی بہاروں سے ختم کر گیا، برصغیر کے نامور ہیرو اور پہلے سپر اسٹار راجیش کھنہ پر فلمایا گیا ایک گیت زندگی اور وقت کی بے ثباتیوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتا ہے

زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام
وہ پھر نہیں آتے، وہ پھر نہیں آتے

دو ہراز سولہ بڑے بڑے نامور لوگوں کو اپنے ساتھ لے گیا، ان میں عبد الستار ایدھی، امجد صابری، فاطمہ ثریا بجیا، موسیقار رابن گھوش، ماضی کی عظیم اداکارہ شمیم آراء، پروڈیوسر یاور حیات، صحافت کا ایک قدآور نام سید انور قدوائی، شفیق مرزا، نامور ادیب اور افسانہ نگار انتظار حسین، گلوکار اے نیر،نامور سیاست دان ڈاکٹر جہانگیر بدر،کرکٹر حنیف محمد،امتیاز احمد، بچوں کے جاسوسی ادب میں بڑا نام اشتیاق احمد، بین الاقوامی شہرت یافتہ کوہ پیما حسن سد پارہ، اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے والے نامور محقق ڈاکٹر انور سدید اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال شامل ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے 2016ء میں اسموگ نے لاہور اور گرد و نواح کو کئی دنوں تک اپنی لپیٹ میں لیے رکھا جس نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا، مزید برآں خشک سالی نے پاکستان پر اپنا راج برقرار رکھا، ماحولیاتی آلودگی کے گھنے ہوتے سائے اپنا رنگ دکھا رہے ہیں، کراچی والے سردی کو سوچتے رہ گئے اور سردی کا سرتاج یعنی دسمبر جلوہ دکھائے بغیر ہی گزر گیا اور لاہور والے 4 دن کی سہمی سہمی سی سردی کو دیکھ کر محظوظ ہونے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔

لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے گزشتہ 10 برسوں میں یہ پہلا سال تھا جو اہل پاکستان کے لیے باعث اطمینان رہا، البتہ مہنگائی کا جن کنٹرول کرنے کی حکومتی کوششیں زیادہ بارآور ثابت نہ ہو سکیں، مہنگائی لوگوں کی صحیح معنوں میں دن میں تارے دکھاتی رہی۔

ملاوٹ کے حوالے سے حکومت خاصی متحرک ہے لیکن لوگوں کی اپنی شرم اور حمیت نہ جانے کہاں گئی ہے جو کتوں اور گدھوں کا گوشت ٹنوں کے حساب سے فروخت کیا جا رہا ہے، دودھ کے نام پر زہر بیچا جا رہا ہے، جعلی ادویات مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہیں، ایسے لوگ ہمارے ارد گرد ہیں، ان لوگوں کا محاسبہ کرنے کی سختی سے ضرورت ہے، اللہ کریم سے دعا ہے کہ نیا سال ہمارے لئے آسانیاں اور بہتری لائے۔

(محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں)