بلاگ
12 جنوری ، 2017

کیا ہمیں واقعی فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے؟

کیا ہمیں واقعی فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے؟

فوجی عدالتوں کے حوالے سے اب دو آراء سامنے آرہی ہیں۔فوجی عدالتوں کی توسیع کے حوالے سےحکومت کی تاخیری کوششیں کسی متفقہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ان کی پہلی کوشش میں ناکامی کی وجہ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی ، جے یو آئی (ف) اور پی ٹی آئی کے تحفظات ہیں تاہم فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی عدالتوں کی کارکردگی کو سراہا ہے۔صرف سول اور ملٹری قیادت ہی نہیں بلکہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان بھی اس حوالے سے بات چیت ضروری ہے تاکہ اس کا سد باب کیا جاسکے۔

حکومت سےگزشتہ دوسالوں کے دوران عدالتی اصلاحات پر وضاحت طلب کرنا حزب اختلاف کا حق ہے، جب کہ پارلیمنٹ نے ان عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی۔جب کہ دوسری طرف فوج کی اعلیٰ قیادت نے کور کمانڈر اجلاس کے بعد فوجی عدالتوں کی کوششوں کو سراہا، جس سے دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن تک فوجی عدالتوں کی موجودگی اور اہمیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔

دوسری طرف یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ31 دسمبر کو فوجی عدالتوں کی معیاد ختم ہوجانے کے بعد حکومت نے اس کی توسیع کی کوششیں کیوں شروع کیں۔اس سے نہ صرف الجھن پیدا ہوئی بلکہ ایک خلاء بھی پیدا ہوگیا ہےکیوں کہ نہ یہ عدالتیں کام کررہی ہیںاور نہ ہی زیر التواء مقدمات انسداد دہشت گردی عدالت میں منتقل کیے جارہے ہیں۔جس طرح یہ مسئلہ فوجی عدالتوں کی معیاد ختم ہونے کے وقت زیر بحث نہیں آیا اس کے سبب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ(ن) کی حکومت فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔

فوجی عدالتوں کا قیام ہو یا پولیس کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعیناتی یہ ہمیشہ غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر اور مقررہ دورانیہ کے لیے ہوتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ ان مبینہ دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں ہی چلنے چاہیئے کیوں کہ سول عدالتوں اور پولیس میں اب بھی صلاحیتوں کی کمی ہےاور اس کی وجہ ججوں، وکلاء اور گواہوں کو درپیش خطرات ہیں۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سول حکومت میں فوجی عدالت کا قیام بذات خود بھی ایک شرمناک بات ہے کیوں کہ اس سے نظام کی ناکامی کی عکاسی ہوتی ہےکیوں کہ متواتر حکومتیں اہم عدالتی اصلاحات کے ذریعے انسداد دہشت گردی عدالتوں کو موثر نہیں بناسکیں، جس سے سول ادارے مضبوط نہیں ہوئےجو عسکری گروہوں سے نمٹ سکتے۔

حزب اختلاف کی جماعتیں جب یہ کہتی ہیں کہ حکومت کے پاس دو سال تھے جس میں وہ بذریعہ اصلاحات پولیس، عدالتی کارروائی، گواہوں کے تحفظ اور بڑے پیمانے پر عدالتی اصلاحات کرسکتی تھی۔تاہم کچھ اہم اقدامت تک نہیں کیے گئے۔اب اگر فوج ، فوجی عدالتوں کی اہمیت اورضرب عضب کے مکمل ہونے تک اس کی ضرورت پر ذور دیتی ہے تو انہیں بھی سول قیادت کومطمئن کرنا ہوگا کہ کس طرح ان فوجی عدالتوں نے دہشت گردی سے نمٹنے میںمدد کی لہٰذا سول اور ملٹری قیادت کے درمیان فوجی عدالتوں اور نیشنل ایکشن پلان (نیپ) پر بات چیت ضروری ہے، جو پھر سے نافذ نہیں کیا گیا تھا۔اس لیے پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر بامعنی مباحثہ ضروری ہے، جس میں وزیرا عظم نواز شریف اور حزب اختلا ف کے تمام سربراہوں بشمول عمران خان کی شرکت ضروری ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںفوجی عدالتوں کو جاری رکھنے کے حوالے سے  ملٹری قیادت کے ساتھ ان۔ کیمرا بریفنگ بھی ممکن ہے۔دو سال قبل جب پارلیمنٹ نے غیر معمولی صورتحال کے پیش نظرجب آرمی پبلک اسکول میں بچوں کو شہید کیا گیا تھا تو فوجی عدالتوں کی منظوری دی تھی۔تب حکومت کو یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ اہم اصلاحات کرے۔اس دوران  امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے اور خودکش حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔تاہم اس کے باوجود بلوچستان میں ایف سی اور کراچی میں رینجرز کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپریشن ختم ہونے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم اب بھی سویلین عدالتوں میں کالعدم گروپوں کے مبینہ دہشت گردوں کے مقد ما ت کی سماعت کے انعقاد کے لئے پر اعتماد نہیں ہیں۔اگر یہ سب سچ ہے توضرب عضب کی کامیابی پر بھی کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔اگر عسکریت پسند اب بھی اتنے طاقتور ہیں کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت مقدمات سے متعلق افراد کو  نشانہ بناسکیں، تو آپریشن کی کامیا بی کی شرح کیا ہے۔

دوسر ی بات یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے موجودگی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے دل میں خوف بٹھایا جائے کہ ان کے مقدمات کا فیصلہ ہفتوں اور مہینوں میں بغیر کسی التوا کے ہوجائے گا۔یہ کسی حد تک درست بھی ہے اور اس میں سول رنگ شامل کرنے کے لیے پارلیمنٹ نے ملزمان کو اپیل کا حق بھی دیا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ سول عدالتیں بشمول اعلیٰ عدلیہ مقدمات کا فیصلہ کرنے میں خاصہ وقت لگاتی ہیں، کبھی کبھی اس میں پانچ سے دس سال بھی لگ جاتے ہیں، جس کافائدہ عسکریت پسند وں کو ہوتا ہے کیوں کہ ہماری جیلیں عسکریت پسندوں کے لیےمحفوظ پناہ گاہیں سمجھی جاتی ہیں۔

سن1997 میں جب انسداد دہشت گردی کا قانون متعارف کروایا گیا تھا تو اس کا مقصد بھی یہی تھا یعنی سماعت تیزی سے سات دنوں میں ہونا اور اعلیٰ عدلیہ میں اپیلیں30 دنوں کے اندر نپٹادینا، جس کے بعد آخری اپیل سپریم کورٹ میں کرنا۔اس قانون میں کوئی خرابی نہیں ہے اور یہ فوجی عدالتوں کا بہترین نعم البدل ہوسکتا ہے۔تاہم وکلاء اور بار ایسوسی ایشنز کی مخالفت کے سبب یہ غیر موثر ہوگیا یہاں تک کہ اب انسداد دہشت گردی عدالتوںکے فیصلوں کے خلاف اپیلیں غیر معینہ مدت تک چلتی ہیں، یہاں تک کہ کچھ مقدمات دس سے بارہ برس تک زیر التواء رہتے ہیں۔اس لیے حکومت، حزب اختلاف اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چاہیئےکہ وہ اے ٹی سی پر کوئی متفقہ رائے قائم کریں اور اس کے قانون میں ترمیم کرکے اسے مزید موثر بنایا جاسکتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والوں میں مذہبی جماعتیں، روشن خیال اور سیکولر افراد سب ہی شامل ہیں، تاہم ان کی وجوہات مختلف ہیں۔جب کہ وہ لوگ جو فوجی عدالتوں کے حامی ہیں، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا عدالتی نظام اس قابل نہیں ہے یا اس میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ایسے دہشت گردوں کو سزا دے سکے ، جس کا انہیں سامنا ہوتا ہے۔

یہ جانتے ہوئے کہ فوجی عدالتیں31 دسمبر ، 2016 کو ختم ہورہی ہیں یہ حیرت انگیز ہے کہ حکومت نے مشاورت اس وقت شروع کی جب آئی ایس پی آر کا بیان جاری ہوا کہ فوجی عدالتوں نے معیاد مکمل ہونے پر اپنا کام روک دیا ہے۔لہٰذا حکومت کوحزب اختلاف کی جانب سے سخت مزاحمت کاسامنا ہےکیوں کہ یہ الیکشن کا سال ہے اور پاناما لیکس کے بعد  ان کے لیے یہ آسان نہیں ہوگا کہ وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کرواسکیں۔

یہ بھی حیرت انگیز تھا کہ حکومت نے حزب اختلاف کی مشاورت کے بغیر جلد بازی میںنیب آرڈیننس لے آئی، اس لیے  انہوں نے حکومت کو آڑے ہا تھوں لیا۔آئی ایس پی آر پہلے ہی گزشتہ دوسالوں کی فوجی عدالتوں کی کارکردگی کی تفصیلات جاری کرچکی ہے۔جس میں 12 امبینہ دہشت گردوں کی پھانسی بھی شامل ہے۔کچھ مقدمات کی اپیلیں اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہیں۔جب پارلیمنٹ نے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی تو اس نے کچھ شرائط بھی عائد کی تھیںکیوں کہ کچھ جماعتوں کو خوف تھا کہ انہیں کھلی چھوٹ دینے سے اس کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے۔

یہ فرقہ وارانہ ہلاکتوں دہشت گردی کی کاررو ائیوں میں ملوث کالعدم گروہوں سے متعلق تھیں۔یہ دوسرا موقع ہے جب سویلین حکومت کے دور میں فوجی عدالتیں قائم ہوئیں۔1998 میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اے ٹی سی  کے بجائے سندھ میں گورنر راج لگا کرفوجی عدالتیں قائم کی تھیں،جسے بعد ازاںسپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

پاکستان کو دہشت گردی کے بڑے عفریت کا سامنا ہےلہٰذا اس اہم مسئلے پر بامعنی مباحثہ ضرور ی ہے۔یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری جمہوری حکومتیںمضبوط عدالتی یا پولیس اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہیں۔اب بھی سویلین عدالتیں اور تیزی سے سماعتیں فوجی عدالتوں کا موثر نعم البدل ثابت ہوسکتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ ، کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟