بلاگ
08 فروری ، 2017

نفرت کے بیوپاری

نفرت کے بیوپاری

تحریر: وجیہہ ثانی

’’تم بے ایمان ہو۔۔ چور ہو۔۔ملک دشمن ہو۔۔ غدار ہو۔۔۔ غدار!..‘‘۔۔۔وہ اشتعال انگیز لہجے میں مجھ پر پے درپے الزامات لگا رہا تھا۔ ۔اور میںنرمی سے اسے اپنا موقف سمجھا سمجھا کے تھک چکا تھا۔۔ سو کرسی سے اٹھ کر کمرے سے باہرجانے لگا ۔

ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی’’ اب بھی وقت ہے ۔۔ سوچ لو۔۔ سمجھوتہ کرلو!۔۔۔چینل چھوڑدو!‘‘کمرے سے باہر نکلتے ہوئے یہ الفاظ میری سماعتوں تک بخوبی پہنچ گئے تھے۔

معاصر چینل کے منفی اور جھوٹے پروپیگنڈے کے اثرات کس طرح نشانہ بننے والے چینل کے ملازمین کی زندگی کو جہنم بناتے ہیں۔ اس کا شاید پروپیگنڈا کرنے والوں کو اندازہ بھی نہ ہو۔

دو سال گزر جانے کے بعد آج بھی یہ سوچ کر جھرجھری سی آجاتی ہے کہ لوگ کیسے کرلیتے ہیں نفرت کا کاروبار۔۔ کیسے بو لیتے ہیں دوسروں کیلئے دشمنی کی فصل ۔۔کیسے دوسروں کو جلتی آگ میںجھونک دیتے ہیں۔۔

حال ہی میں برطانوی عدالت میں وہ سارے الزامات جھوٹے اور بوگھس ثابت ہوگئے۔۔ چینل سرخرو ہوا۔۔۔ لیکن بہت سارے لوگ اب بھی اس زہریلے پراپیگنڈے کے زیر اثراپنی رائے قائم کئے ہوئے ہوں گے۔۔ اور چینل ملازمین جس اذیت و کرب سے گزرے اس کا شاید ہی کبھی ازالہ ہوسکے۔۔

آج کل پھر یہ کاروبار عروج پر ہے۔ نئے بیوپاری میدان میں متعارف کرائے گئے ہیں جو نفرت سینچ رہے ہیں۔۔ زہر بو رہے ۔۔کتنا آسان ہوگیا ہے۔ کاروباری رقابت۔۔ مسابقت میں بازی لے جانے کی دھن۔۔کسی پرانے حساب کو بے باق کرنے کی لگن۔ ۔۔ یا پھر صرف آپ کی رائے سے مختلف رائے رکھنے کے جرم میں آپ کسی کو بھی غدار۔۔ ملک دشمن ۔۔ یا مذہب دشمن ٹہرادیں۔

سیاق و سباق سے الگ کرکے کسی بیان کو اپنی مرضی کا رنگ دے لینا کتنا آسان ہوگیا ہے ۔۔ اور پھر سوشل میڈیا جیسے دور مار میزائل پر فٹ کرکے اسے اندھا دھند چلا دیا جاتا ہے۔

گزشتہ روز لارڈ نذیر کا بیان سنا کئی سال پہلے لگائے گئے الزامات پر ندامت کا اظہار۔۔ جنگ اور جیو پر لگنے والے الزامات پر اپنی تحقیق اور پھر اپنی اعلیٰ ظرفی کا تذکرہ۔۔ کہا کہ جس ڈھٹائی سے الزامات لگائے تھے آج اسی جرات کے ساتھ ان کے غلط ہونے کا اعتراف بھی کررہا ہوں ۔۔

شاید برطانیہ میں ہتک عزت کے سخت قوانین کا ڈر تھا ۔۔ یا پھر لارڈصاحب واقعی اعلیٰ ظرف آدمی ہیں کہ انھوں نے آن ریکارڈ اپنے غلط ہونے اور غلطی پر افسوس کرنے کی جرات کی۔۔ ورنہ نفرت کا کاروبار کرنے والوں کو نہ یہاں کے قوانین ڈراپاتے ہیں نہ ظرف و حیا نامی کوئی چیز ان کے دامن سے آکر الجھتی ہے۔۔۔

اب ایسے میں نفرت کا نشانہ بننے والے کا امتحان شدید سے شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے کیونکہ دل چیر کر تو دکھایا نہیںجاسکتا۔۔۔ نہ ہی کوئی ایسا پیمانہ ہے جہاں ۔۔ ایمان ماپا جاتا ہو۔۔ میڈیکل سائنس نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی کہ ’’وطن کی محبت ـ‘‘خون ٹیسٹ سے ثابت کی جاسکے ۔۔

نہ عدالتیں ایسے الزامات لگانے والوں کا ازخود نوٹس لے کر انھیں پوچھتی ہیں کہ غداری اورتوہین کے یہ سرٹیفکیٹس بانٹنے کی مجاز اتھارٹی آپ کو کس نے بنادیا ۔۔

لائیے کچھ ہمارے علم میں بھی اضافہ کریں کہ آپ کس بنیاد پر ۔۔ ایسے حتمی فیصلے صادر کئے ہی چلے جارہے ہیں۔۔ جب ایسا کچھ نہیں ہورہا اور شاید ہی ہو ۔۔ تو ہمارے پاس سوائے خدا کی پکڑ کی آس کے اور کیا رہ جاتا ہے۔ سو اسی پر گذارا کرنا ہوگا۔۔ اور انشاللہ وہ جلد ہوگی۔۔