بلاگ
18 فروری ، 2017

درگاہ پر حملہ، ذمے دار کون ؟

درگاہ پر حملہ، ذمے دار کون ؟

 

تحریر: یعقوب ہارون
کراچی سے تقریبا 280 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع حضرت لعل شہبازقلندر کی درگاہ پر ہونے والے دھماکے نے حکومتی انتظامات کی قلعی کھول دی ۔واضع رہے کہ ُسہون وزیر اعلی سندھ کا آبائی حلقہ بھی ہے۔ اسی علاقے سے ان کے والد بھی منتخب ہوکر وزیراعلیٰ بنتے رہے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس جگہ اب تک کوئی بڑا اسپتال نہیں بنایا گیا ۔

گو کہ ہر سال یہاں لاکھوں کی تعداد میں زائرین حاضری دینے آتے ہیں اور خاص طور پر گرمیوں کے دنوں میں ہر سال یہاں اسپتالوں کی سہولت نا ہونے کی وجہ سے کئی اموات ہوتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مزار پر خودکش دھماکا ہونے کے بعد ایک گھنٹے تک مزار کےاحاطےمیں ریسکیوآپریشن شروع نہ کیاجاسکا۔

تعلقہ اسپتال سہون مزار سے آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن یہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے ۔ کاغذوں میں تو یہ اسپتال ڈیڑھ سو بستروں اور سات ایمبولینسوں سے لیس ہے مگر افسوس کہ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں اور شہید ہونے والوں کو ذاتی گاڑیوں ، رکشوں اور ٹیکسیوں میں اسپتال منتقل کرتے رہے ۔

ستم ظریفی یہ کہ انہیں طبی امداد دینے کیلئے تعلقہ اسپتال میں فوری طور پر ڈاکٹرز بھی میسر نہیں تھے ۔ عینی شاہدین کے مطابق جب زخمیوں کو اسپتال پہنچایاگیا تو اسپتال کا عملہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

اسپتال میں تعینات7سے8 ڈاکٹروں کو اسپتال پہنچنے میں تاخیر کے باعث زخمیوں کو مشکلات ہوئیں۔ ڈاکٹروں کی کمی کے ساتھ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ادویات کی قلت نے بھی متاثرین کا امتحان لیا۔ اتنی بڑی تعداد میں زخمیوں کیلئے بستروں کی موجودگی بھی سوالیہ نشان بنی۔ بیشتر زخمیوں کو اسپتال کے فرش پر لٹا کر طبی امداد دی گئی۔

مختلف این جی اوز اور ایدھی کی امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر لاشوں اور زخمیوں کو سندھ کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا۔ واضح رہے کہ سہون شریف حضرت لعل شہبازقلندر کی درگاہ کی وجہ سے ملک بھر کے زائرین کی توجہ کا مرکز رہتا ہے ، ہر جمعرات ہزاروں کی تعداد میں زائرین ملک بھر سے قلندر کی درگاہ پر حاضری کے لیے آتے ہیں جبکہ عرس کے موقع پر یہ تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے ۔

ہر سال یہاں موسم کی سختی اور طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے زائرین کی بہت بڑی تعداد جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے لیکن شرم کا مقام ہے کہ انتہائی اہم سیاسی شخصیات کا یہ حلقہ بنیادی طبی سہولیات سے آج بھی محروم ہے ۔اس علاقے کے لوگوں کو ان کے سیاسی قائدین صرف انتخابات کے موقع پر یاد کرتے ہیں اور پھر وہاں سے ایسے غائب ہوتے ہیں کہ جیسے ان کا سہون سے کوئی تعلق ہی نا ہو۔

تاریخی اہمیت کے حامل اس حساس شہر میں ناقص سیکورٹی اور طبی سہولیات کی عدم فراہمی کا ذمہ دار کون ہے ؟؟ کیا اس کی ذمہ دار یہاں سے منتخب ہونے والی سیاسی قیادت کی نہیں ؟؟