پاکستان
21 فروری ، 2017

درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکے ہیں، جسٹس عظمت

 

اٹارنی جنرل نے پاناما پیپرز کیس میں موقف اپنا یا کہ ایسے مقدمات کی سماعت عدالت کا دائرہ اختیار نہیں، عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اختیار استعمال کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا، پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا بنیادی حقوق متاثر ہوئے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکے ہیں ۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کی، عدالت کے حکم پر ایف بی آر اور نیب کے چیئرمین سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، ایف بی آر نے تسلیم کیا کہ پاناما معاملہ سامنے آنے پر قوری اقدامات نہیں کئے، چیئرمین نیب نے کہا متعلقہ اداروں کی طرف سے کاروائی کے بعد ہی کاروائی کر سکتے ہیں۔ اپنے خیالات پر قائم ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز پر اپیل دائر نہیں کروں گا۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا بہت بہت شکریہ چیئرمین نیب صاحب، اب آپ کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کمیٹی میں نیب کا موقف تھا کہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں، چیرمین نیب نے کہا ہمارا موقف ہے کہ متعلقہ اداروں کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعیدنے کہا کیا نیب ریگولیٹر اداروں کے کام کا انتظار کرتا ہے؟

جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا نیب کو بھی کوئی ریگولیٹ کرتا ہے؟

چیرمین نیب نے کہا نیب کو اس کے قوانین ریگولیٹ کرتے ہیں۔

جسٹس کھوسہ نے کہا نیب قانون چیرمین کو کارروائی کا اختیار دیتاہے،یہ ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا؟ قطری خط میں بھی ریگولیٹر آف پاکستان کا ذکر تھا، پاکستان میں آخر ریگولیٹر ہے کون؟

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو بینک کی جانب سے تحقیقات کا کہا جاتا ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا ہزاروں ریفرنس زیر التواء ہیں جن میں بینکوں نے کارروائی کا نہیں کہا تھا۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کیا ریگولیٹر وہ ہے جو چیرمین کو تعینات کرتا ہے؟ اوگرا اور نیپرا کا تو بطور ریگولیٹر سنا تھا، نیب کا ریگولیٹر کون ہے؟ جسٹس گلزار احمد نے کہا نیب کی ٹیم کو سن کر افسوس ہوا، پراسیکیوٹر جنرل صاحب، اب بس کر دیں، آپ کو عدالت کی معاونت کا کہا تھا آپ نے عدالت کو گمراہ کرنا شروع کر دیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کو دائرہ اختیار ہی نہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو، بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی، نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون؟ ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا ۔

چیرمین نیب نے کہا نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا، میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے، جسٹس گلزار احمد نے عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا چیرمین نیب کو تعینات کرنے والے بھی انہیں ہٹا نہیں سکتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ایک سال گزر گیا لیکن نیب نے کچھ نہیں کیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آئے تو نیب انکوائری تو کرتا ہی ہے، جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھتے تو سہی، کسی ایک بندے سے پوچھا کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟؟ کیا کارروائی کریں گے آپ چیئرمین صاحب؟

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کیا آپ کے کام نہ کرنے کی وجہ وہ شخص ہے جس نے آپ کو تعینات کیا، نیب غیر سنجیدہ مقدمات میں بھی اپیل دائر کرتا ہے، نیب وکلاء کہتے ہیں حکام بالا کو مطمئن کرنے کے لیے اپیل کرتے ہیں۔

کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔کیس کی سماعت جمعرات تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔

مزید خبریں :