بلاگ
24 فروری ، 2017

گریٹ گیم پاکستان اور ہمارے رویے

گریٹ گیم پاکستان اور ہمارے رویے

 لاہور ایک مرتبہ پھر بے گناہوں کے خون سے نہا گیا۔آٹھ دس دنوں میں کراچی تا خیبر دھماکوں کی بازگشت سنائی دے گئی۔آغاز لاہور میں شاہ دین بلڈنگ کے باہر دھماکے سے ہوا جس کے بعد کوئٹہ سہون شریف اور پشاور خون سے نہا گئے اور لاہور پھر لرز اٹھا۔

لوگ اس کے ڈانڈے پاکستان سپر لیگ کے فائنل سے ملا رہے ہیں لیکن اصل بات کچھ اور محسوس ہو رہی ہے۔دو تین ہفتے پہلے برطانوی نشریاتی ادارے نے پاکستان کے حوالے سے ایک رپورٹ دی تھی کہ ایک عرب جہادی تنظیم نے پاکستان کی کرم ایجنسی میں پمفلٹس پھینکے ہیں اور پاکستان کو افغانستان کے بعد اپنا نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہےاور علاقے کے لوگ بہت خوفزدہ ہیں۔

مجھ سے ایک ٹی وی پروگرام میں اس حوالے سے رائے لی گئی تو میں نے بتایا کہ اس دھمکی کو بہت سیریس لینا ہو گا کیونکہ دو سال پہلے بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کو ایک خفیہ رپورٹ ارسال کی تھی کہ پاکستان میں اس عرب تنظیم کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں اور اس نے اس سلسلے میں بھرتی شروع کر دی ہے۔ان دنوں وال چاکنگ بھی کی گئی لیکن وزیر داخلہ نے ایسی تمام خبروں کی تردید کی اور کہا کہ یہ ایک عرب تنظیم ہے اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔

بلوچستان حکومت کے خبردار کرنے کے ٹھیک دو سال بعد فوج کے آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ جنرل عاصم باجوہ نے ناصرف اس عرب تنظیم کی پاکستان میں موجودگی کا اعتراف کیا بلکہ20 غیر ملکی افراد کی گرفتاری کا بھی بتایا ۔اس سے یہ کنفرم ہو گیا کہ یہ عرب تنظیم پاکستان میں اپنا نیٹ ورک بنا رہی تھی اور اس کو یہاں اپنے سہولت کار بھی میسر تھے۔

تین ہفتےپہلے پمفلٹ پھینکے گئے اور چند روز کے اندر لاہور کے انتہائی حساس علاقے میں دھماکہ ہوا اور پھر یہ دراز ہوتا سلسلہ کیا بتا رہا ہے؟

سہون شریف کے دھماکے کی ذمہ داری اس جماعت نے قبول بھی کر لی۔

پاکستانی فوج نے افغان سرزمین پر موجود ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر بہت درست اقدام کیا اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے آپریشن ’ردالفساد‘ کا اعلان بہت خوش آئند ہےکیونکہ جیسا کہ میں اپنی تحریروں میں کافی عرصے سے اس خدشے کا اظہار کر رہا ہوں کہ گریٹ گیم کا آغاز ہو چکا ہے دنیا میں ’ٹرمپی ورلڈ آرڈر‘ کے بعد نئے بلاکس بن رہے ہیں ۔بھارت امریکہ اور اسرائیل اب اکٹھے ہیں۔

افغانستان میں وہ ویسے ہی موجود ہیں پاکستان اطراف سے خطروں میں گھرا ہوا ہے اور ہم پاناما، پاناما کا شور مچائے جا رہے ہیں۔ہزار برس پہلے جب ہلاکو خان خلافت عباسیہ سے لڑ رہا تھا تو ہم ایسے ہی مسائل میں الجھے ہوئے تھے اور اندر کے سہولت کاروں نے بغداد کے دروازے کھولے تھے۔

آج بھی پاکستان کے اندر سے ان سہولت کاروں کو پکڑنے کی ضرورت ہے۔اسلامی نظریہ ابلاغ یہ ہے کہ بغیر تحقیق کے بات کو آگے مت پہنچاؤ.اور ہمارے نام نہاد سوشل میڈیائی دانشور یہ کام بخوبی کر رہے ہیں۔خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے دشمن پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہ رہا ہے اور ہم اپنی حماقتوں سے اسے یہ موقع فراہم کر رہے ہیں۔

یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ اپنے گھر کے ایسے معاملات میں الجھیں کہ کس کی پاکٹ منی کتنی ہے یا کون زیادہ کھانا کھا گیا۔ ہمارے گھر پر جب باہر سے کوئی حملہ کرے گا تو کیا ہم ان باتوں میں الجھیں گے؟؟؟؟

پاکستان بھی ہمارا گھر ہے جس میں ہم رہتےہیں.خدارا سنبھل جائیں کیونکہ تیسری عالمی جنگ اگر ہوئی تو اس کا میدان جنگ یہی خطہ ہو گاہمیں اپنے رویے بدلنا ہوں گے۔