بلاگ
25 فروری ، 2017

تم جو چاہو تو سنو ...

تم جو چاہو تو سنو ...

جمعرات کی صبح لاہور میں دھماکے کی خبر ملک کے کسی بھی شہری کے لیےقیامت سے کم نہیں تھی، اس سانحے میں جہاں 8انسانی جا نیں گئیں وہیں 30 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

باوجود شکوک و شبہات کے پنجاب حکومت اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں بلکہ ایک حادثہ ہے، ادھر سندھ کے معروف علاقے سہون شریف میں لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر تباہ کن خود کش حملے کے بعد قوم کے کسی بھی فرد کے لیےسیاست دانوں کی ایسی باتوں پر اعتبار کرنا ذرا مشکل ہے۔

لاہور کا دھماکا دہشت گردوں کے خلاف ایک نئے آپریشن ’ردالفساد‘ کے اعلان کے 24گھنٹوں کے اندر رونما ہوا، اس آپریشن کا اعلان دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور خاص طور پر لال شہباز قلندرؒ کے مزار پر ہونے والے ہولناک خود کش حملے کے بعد کیا گیا۔

اس پیش رفت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ دہشت گرد اب بھی نہ صرف ہمارے آس پاس منڈلا رہے ہیں بلکہ ان کی تعداد، توانائی اور منصوبہ بندی کی صلاحتیوں میں ذرّہ برابر کمی نہیں آئی۔

اب تک ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کئی بڑی کارروائیاں کی جاچکی ہیں، خاص طور پر 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاورپربزدلانہ حملے کے بعد آپریشن ضربِ عضب میں انتہائی تیزی آئی اوراس کے نتیجے میں بلاشبہ، خود کش حملوں سمیت دہشت گردی کی کارروائیوں میں نہ صرف کمی آئی بلکہ اس کی شدّت بھی ماند پڑ گئی۔

ایسے کسی بھی آپریشن کی کامیابی جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ اُسے بہتر ہوتے ہوئے حالات کے’ دورانئے‘ کے تناظر میں دیکھا جائے، لہٰذا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پچھلے دو سال سے زائد عرصے میں یہ بات یقینی طور پر محسوس کی گئی کہ دہشت گردوں کو عمومی طور پر کوئی منظم اور بڑی کارروائی کرنے میں مستقل کسی طاقتور مزاحمت کا سامنا رہا ۔

لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران چاروں صوبوں میں، اوپر تلے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد ایک با ر پھر ملک میں خوف اور مایوسی چھانے لگی ہے اور عوام دہشت گردوں کے خلاف گزشتہ چند سالوں میں ہونے والی کارروائیوں پر یقین رکھنے کے باجود کچھ شش و پنج میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

ایک عام آدمی کے ذہن میں ایسے کسی بھی آپریشن کا سب سے واضح مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دہشت گردی کا خاتمہ اور اس کی بنیاد بننے والے حالات پر قابوپانا، لیکن لوگ عموماً اُن پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہوتے جو آپریشن کرنے والے ادارے اور اس کے اہل کاروں کو درپیش ہوتے ہیں، تاہم حالیہ واقعات کے باعث عوام کے ذہن میں کچھ سوالات فطری طور پر جنم لے رہے ہیں، مثلا ً دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں کامیا بی کا پیمانہ کیا ہے؟ ان کو گرفتار کرنا، ہلاک کرنا یا فرار ہونے پر مجبور کرنا؟

دیگر بنیادی سوال یہ ہیں کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی گرفتاری اور سزا کیوں کر ممکن نہیں؟ گرفتار مجرموں کو ابھی تک سزا کیوں نہیں دی جا سکی؟ دہشت گردوں کی تربیت گاہوں کو ختم کرنا ان کارروائیوں میں شامل ہوتا ہے یا نہیں؟ ان کارروائیوں کے اہداف اور مینڈیٹ کن بنیادوں پر طے کئے جاتے ہیں اوران کی تفصیلات کیا ہیں؟

مثا ل کے طور پر اگر کسی آپریشن کا مقصد دہشت گردوں کو ختم کرنا ہے تویہ دہشت گرد اب تک موجود کیسے ہیں؟ اور یہ بھی کہ اگر دہشت گرد اب تک ختم نہیں ہوئے تو پھر ان کارروائیوں کے دوران جن لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں وہ کون تھے؟ مارے جانے والوں کی صحیح شاخت ہوپائی یا نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کے حکمران اور ان کے حامی سیاست دان کس بنیاد پر یہ اعلان کردیتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، ان کا نیٹ ورک تباہ و برباد کردیا گیا ہے اور ان کی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت ختم کردی گئی ہے۔

حالیہ واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ دہشت گرد نا صرف زندہ ہیں بلکہ ان میں آج بھی منظم ہونے اور اپنے مؤثر نیٹ ورک کے ذریعے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت پہلے جیسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، یعنی ان کے خلاف ماضی میں کی گئی کارروائیوں کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ مستقبل میں ایسے آپریشنز میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے، عوام کو لمحہ بہ لمحہ با خبر رکھنے کے ساتھ منتخب حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے ادارون کے درمیان بھرپور تعاون ناگزیرہے۔

دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو مؤثر بنانے کے لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ عوام کو بر وقت یہ بتایا جاتا رہے کہ کو ن سا دہشت گرد کہاں، کن حالات میں گرفتار کیا یا مارا گیا اور وہ کن کن کارروائیوں میں مطلوب یا ملوث تھا، شفافیت کے ذریعے کراچی سے شمالی وزیرستان تک اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی معصوم انسانی جان ضائع نہ ہو۔

دہشت گردی کی تازہ لہر کے دوران بد ترین واقعہ سہون شریف میں پیش آیاجہاں لگ بھگ 90 افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوئے، المیہ یہ ہے کہ حضرت لال شہبار قلندرؒ کے مزار سے لے کر سینکڑوں میل دور تک کوئی ایسی معقول طبی سہولت موجود نہیں تھی جہاں زخمیوں کی جانیں بچائی جا سکتیں۔

میں نے اپنی کرائم رپورٹنگ کے دنوں میں یہ محسوس کیا تھا کہ دہشت گردی کی کسی بڑی کارروائی کے فوراً بعد تیز رفتار طبی امداد کے ذریعے قیمتی انسانی جانیں بچائی جاسکتی ہیں، میرے تجربے کے مطابق جب بھی دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے توایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کو جان لیوا زخم نہیں آئے ہوتے اور وہ فوری طبی امداد کے طلب گار ہوتے ہیں۔

چند واقعات میں ایسے متاثرین کی اکثریت تھی جنہیں فوری اور مؤثر طبی امداد کے ذریعے بچایا جاسکتا تھا، لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ دہشت گرد حملے میں مرنے والوں میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جنہیں فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

سہون شریف کے واقعے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ دھماکے نے جو تباہی پھیلائی وہ اپنی جگہ لیکن عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں ایسے بہت سے لوگ شامل تھے جو بر وقت طبی امداد نا ملنے کی وجہ سےجا نبر نہ ہوسکے۔

دھماکے کے فوراً بعد جائے حادثہ پہنچنے والی ’جیو نیوز‘ کی ٹیم کے مطابق تعلقہ اسپتال سہون وہاں کا سب سے بڑا اسپتال ہے جس کی سنگ بنیاد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے والد اور اس وقت کے وزیراعلیٰ سیدعبداللہ شاہ نے رکھی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ خود کش حملے کے وقت تعلقہ اسپتال میں 6ایمبولینسز موجود تھیں لیکن صرف دو قابل استعمال تھیں اور لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اسپتال پہنچایا، معلومات کے مطابق تعلقہ اسپتال سہون میں ڈاکٹروں کی تقریباً 90اسامیاں اب تک خالی پڑی ہیںجبکہ زخمیوں کو دی جانے والی طبی امداد سے وہاں موجود کچھ ڈاکٹروں کی اہلیت بھی مشکوک نظر آتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اسپتال میں ضروری دوائیں موجود نہیں تھیں،اگرچہ جان بچانے کے کچھ انجکشن موجود تھے لیکن سرنج دستیاب نہیں تھیں۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی! دھماکے کے بعد ایدھی اور چھیپا کی ایمبولینسیں پہنچیں اور زخمیوں کو حیدرآباد، کراچی اور دیگر علاقوں کے اسپتالوں میں منتقل کیا لیکن شاید سہون شریف میں ہونے والے خودکش حملے میں شہید اور زخمی ہونے والوں اور ان کے لواحقین کی مشکلات میں بد ترین انتظامی کارروائیوں نے سیکڑوں گنا اضافہ کر دیا۔

سیہون میں انسانی بد قسمتی سر چڑھ کر بول رہی تھی، دھماکے کے کئی گھنٹوں بعد تک لاشوں اور زخمیوں کو جہاں اپنی مدد آپ کے تحت وہاں سے منتقل کیا جاتا رہا وہیں مزار کے اندر کئی مقامات پر انسانی اعضاء گر گر کر بکھرتے گئے، لیکن افسوس کہ انتظامیہ کی نااہلی اور عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے وہ اعضا دوسرے دن تک وہیں پڑے رہے، الغرض ان اعضاء سے تعفن پھیلنے لگا اور ذرائع کے مطابق دوسرے دن مزار کی صفائی کے دوران ان اعضاء کو اکٹھا کرکے مزار کے قریب موجود گندے نالے میں ڈال دیا گیا اور وہاں موجود کتے، بلیاں اور پرندوں کو انسانی اعضاء کو کھاتے دیکھا گیا۔

دوسری جانب نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمراں جماعت کے اہم لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ یہ انسانی اعضاء دھماکے کی شدت کی وجہ سے نالے میں جا گرے اور اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں، وہ ’جیو نیوز‘ کے نمائندے پر بھی برہم ہوئے جس نے ان کی توجہ اس جانب دلائی، البتہ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اُن مقامات پر بلی کتوں کو چھوڑنے کی ڈیوٹی پر کس کو معمور کیا گیا تھا؟

ان تمام واقعات کے پیچھے نا اہلی، بے حسی، بے بسی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے ساتھ ساتھ کچھ مجبوریاں بھی شامل ہیں، مثلاً مزار پرخواتین کوچیک نہیں کیا جاتا،مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مزار پر کسی خاتون یا اہم شخصیت کی تلاشی بڑی مصیبت یا فساد کا باعث بن سکتی ہے۔

دوسری جانب ’جیونیوز‘ کی ٹیم کو بتایا گیا کہ کچھ عرصے قبل مزار پر تعینات ایک پولس اہلکار نے ایک وکیل کو مزار میں داخل ہوتے ہوئے چیک کرنے کی کوشش کی تو پہلے اس وکیل نے اس پولس اہلکار کی خوب بے عزتی کی اور پھر غالباً کسی مجسٹریٹ کے پاس جاکر درخواست کی کہ اس پولیس اہلکار کو بلوا کر معافی مانگنے کا حکم دیا جائے، آخر کار اس بے چارے فرض شناس پولس اہلکار کو اس وکیل سے معافی مانگنی پڑی۔

’جیو نیوز‘ کے نمائندے قسیم سعید نے سہون میں اس پولیس اہل کار کو ڈھونڈ نکالا لیکن ان کے استفسار کے باوجود اس اہلکار نے التجا کی کہ اس کا اور اس وکیل کا نام ظاہر نہ کیا جائے ورنہ اس کی زندگی اجیرن ہوسکتی ہے، ان حالات کے تناظر میں تو جو کچھ ہوا وہ حیران کن نہیں۔

مزار کے قریب ایک چھوٹا سا بازار ہے جہاں زائرین 24گھنٹے مزار پر چڑھائی جانے والی چادریں، پھول اور تبرک سے متعلق اشیاء خریدتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ بازار پچھلی کئی صدیوں سے مستقل کھلا ہوا ہے لیکن اس حادثے کی شدت اور دہشت نے اس پورے بازار کو صدیوں بعد پہلی بار مکمل طور پر بند کر دیا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور یوں لگتا ہے کہ وفاق اور صوبے کو چلانے والے حکمرانوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ بزرگوں اور اولیاؤں کی اس سرزمین پرنا اہلیت اور ہٹ دھرمی کے وہ ریکارڈ قائم کئے جائیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

دوسری جانب لاہور میں رونما ہونے والا دھماکا ملک کے ہر خطے میں بسنے والے شہریوں کا دل بجھا دینے کیلئے کافی ہے، پنجاب حکومت اب تک اس واقعے کو حادثہ قرار دے رہی ہے چاہے پنجاب حکومت کا تجزیہ یا دعویٰ سچ ہی کیوں نہ ہو لیکن اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ عوام اب اتنا سب کچھ لٹانے کے بعد اس واقعے کو حادثہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ اب ایسی کسی بات کو ماننے کو تیار ہوں گے۔

اس مضمون کے مصنف نصرت امین سینئر صحافی ہیں اور جیونیوز/جنگ گروپ سے وابستہ ہیں۔
ای میل [email protected]