بلاگ
01 مارچ ، 2017

اقتصادی تعاون تنظیم اجلاس اور گریٹ گیم کے تانے بانے

اقتصادی تعاون تنظیم اجلاس اور گریٹ گیم کے تانے بانے

 بچپن سے ہی ہم سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کو صرف اللہ ہی چلا رہا ہے اور آج اس بات پر یقین بڑھتا سا جا رہا ہےکہ صرف وہی ذات اس کی حفاظت فرما رہی ہے اور قائد کا یہ فرمان کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے ،عالمی طاقتیں اپنی چالیں چل رہیں ہیں اور پاکستان کو بچانے والا اپنی چال چل رہا ہے اور بے شک وہ بہترین چال چلنے والا ہے۔

ٹرمپی ورلڈ آرڈر اپنا کام کر رہا ہے، بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکا کے دھونس پسند نئے صدر ٹرمپ دوستی کے بھلے نئے افق تلاش کریں، افغانستان بھلے ہماری قربانیوں کو بھلا دے، بین الاقوامی سازشیں پاکستان میں بھلے جتنے چاہے تانے بانے بنیں، میرا ایمان ہے کہ پاکستان ترقی کرے گا۔

سوشل میڈیائی دانشوروں نے لاہور دھماکے کے بعد انٹرنیٹ کا سہارا لے کر ہماری شرافت کا گویا مذاق بنا رکھا تھا، اقتصادی تعاون تنظیم کا اسلام آباد میں ہونے والا سربراہ اجلاس ایسے تمام ٹرمپی مودی دانشوروں کے منہ پر طمانچہ ہے، ترکی، ایران، تاجکستان، کرغیزستان، قازقستان، آذر با ئیجان، ترکمانستان اور ازبکستان کے سربراہان کے ساتھ ساتھ چین اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کی ای سی او کے اجلاس میں شرکت کیا اشارہ کر رہی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔

میں نے 2014ء میں اپنی کتاب میں پاکستان اور فوج 'میں سول ملٹری تعلقات کی ایک نئی ڈاکٹرائن کا تصور پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان عالمی سازشوں کا شکار ہو رہا ہے اور فوج اس وقت پاکستان کو کمزور کرنے کی کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گی اور ایسا ہی ہوا جنرل راحیل رخصت ہوئے اور فوج آج بھی اسی پالیسی پر قائم ہے۔

گزشتہ روز روسی سفیر نے آرمی چیف سے ملاقات کی جس کے بعد جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ روس کے ساتھ تعلقات خطے کی سلامتی کے لیے مثبت ہوں گے، ادھر ایک امریکا جریدہ بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ایکویٹی مارکیٹ پرفارمنس میں پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہے۔

ای سی او تنظیم جن ممالک پر مشتمل ہے، دنیا کی 52فیصد تجارت انہی ممالک سے ہوتی ہے، اقتصادی سرگرمیاں مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہیں اور پاکستان کو اب اپنا تاریخی کردار ادا کرنا ہے، افغانستان کا سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنا بھی نئی گریٹ گیم کا حصہ ہے جس کا اظہار میں اپنے کالموں میں مسلسل کر رہا ہوں، دنیا کے نئے بلاکس بن رہے ہیں۔

70برس سے ہمارے دوست اب ہمارے دشمنوں کے ساتھ جا ملے ہیں اور ہمیشہ کے دشمن آج ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور ہم پاناما، پاناما کا شور مچا کر حکومت کو غیر مستحکم کر کے، جمہوریت کو ڈی ریل کر کے اپنی نادانیوں سے کس کا ساتھ دے رہےہیں۔

کسی نے درست کہا ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے، دشمن چاروں طرف سے گھات لگائے بیٹھا ہے، پاکستان کو غیر مستحکم کرنےکی سازش کی جا رہی ہے اور ہم فضول اور بے مطلب کی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں، امریکا، بھارت، اسرائیل اور افغانستان ایک سمت میں ہیں، پاکستان، چین، روس اور ترکی دوسری سمت میں۔

پاناما امریکا کی ایک طفیلی اسٹیٹ ہے جہاں کا پتہ بھی امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا، روسی صدر سمیت کئی ممالک کے سربراہان پر الزام لگے لیکن انہوں نے امریکی سازش قرار دے کر رد کر دیا، آخر ہمارے یہاں نیو ورلڈ آرڈر کی ایجنڈا سٹنگ کیا ہے، قوم کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔

(مصنف محمد زابر سعید 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کے درس و تدریس سے وابستہ ہیں)