خصوصی رپورٹس
25 مارچ ، 2017

ورلڈکپ 92 کی یادیں : سڈنی چار مارچ 1992

ورلڈکپ 92 کی یادیں : سڈنی چار مارچ 1992

یہ وہ دن تھا جب ورلڈ کپ میں پہلی بار پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں آمنے سامنے سامنے تھیں ۔روائتی حریفوں کے درمیان میچ میں سڈنی کرکٹ گراونڈ توقعات کے مطابق کھچا کچھ بھرا ہواتھا۔

آسٹریلیا کا سڈنی کرکٹ گراؤنڈ شارجہ کا منظر پیش کررہا تھا جہاں دونوں ٹیموں کے ہزاروں فینز اپنی اپنی ٹیموں کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے۔ویسے تو پاک بھارت میچ جب بھی ہو کوئی ٹیم اس میچ کو ہارنا نہیں چاہتی لیکن ایونٹ کا یہ میچ دونوں ٹیموں کے انتہائی اہمیت کا حامل تھاکیونکہ ایونٹ میں اب تک دونوں ٹیموں کی پوزیشن اچھی نہیں تھی ۔

بھارت نے 18 سالہ سچن ٹنڈولکر کی نصف سنچری کی بدولت 216 رنز بنائے۔بظاہر یہ ہدف پاکستان بیٹنگ کو دیکھتے ہوئے اتنا مشکل بھی نہیں تھا ۔عامر سہیل اور میانداد کریز پر جس اعتماد سے کھڑے تھے ہر ایک کو یہی لگ رہا تھا کہ یہ میچ پاکستان بآسانی جیت جائےگالیکن عامر سہیل کے 62 رنزپر آؤٹ ہونے کے بعد وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی گئی اور پاکستان کی پوری ٹیم 173 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔اس میچ کو پاکستانی شائقین شاید کبھی یاد نہیں کرنا چاہیں گے لیکن میچ میں ہونے والا جاوید میانداد اور بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے کا جھگڑا لوگ آج تک نہیں بھولے ۔ میچ میں جاید میانداد نے اپنے مخصوص انداز میں وکٹ کیپر کی کاپی کرکے شائقین کو بہت محظوظ کیا ۔

ہر شکست کے بعد پاکستان ٹیم میگا ایونٹ کے سیمی فائنل کی دوڑ سے دور ہوتی گئی۔شائقین کی امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔

تھکی ہاری پاکستان ٹیم آٹھ مارچ کو جنوبی افریقہ سے مقابلہ کرنے کے لئے برسبین پہنچی۔یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان ٹیم جنوبی افریقہ کا سامنا کررہی تھی۔ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے سے واقف بھی نہیں تھیں لیکن جنوبی افریقہ نے ٹورنامنٹ میں سب کو متاثر کی تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ورلڈ کپ کی فیورٹ ٹیموں میں شامل ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ ان کی بہترین فیلڈنگ ،بیٹنگ اور مظبوط بولنگ اٹیک تھا۔

یہ پاکستان کے لئے’ ڈو اور ڈائی‘ میچ تھا۔ اس میچ میں شکست کے بعد پاکستان کے لئے کم بیک کرنا تقریباً ناممکن تھا ۔پھر جاوید میانداد اور رمیز راجا جیسے کھلاڑی انجری کی وجہ سے دستیاب نہیں تھے۔ بولنگ میں وسیم اکرم کو ردھم نہیں مل رہا تھا شاید وہ اب تک وقار یونس جیسے پارٹنر کو مس کررہے تھے۔

اکرم نے اس میچ سے قبل 27 وائیڈ بالز کر رکھی تھیں جو نہ صرف ان کے لئے بلکہ کپتان عمران خان کے لئے بھی پرشیانی کا باعث تھیں کیونکہ وسیم اکرم کپتان کے میچ ونر تھے اور ایونٹ میں اب تک کچھ خاص کارکردگی پیش نہیں کرسکے تھے ۔۔پھر ٹیم کی انجریز مینجمنٹ اور کپتان عمران خان کے لئے تشویش کا باعث بنتی جارہی تھیں ۔

ایسی صورتحال میں پاکستان کے لئے ورلڈ کپ چمپئن بننا تو دور ایک میچ میں گیارہ کھلاڑیوں کو کھلانا بھی چیلنج بن گیا تھا کیونکہ ہر میچ کے بعد کوئی کھلاڑی انجرڈ ہوجاتا تھا۔ یہاں تک کہ میچ میں کسی نہ کسی انجرڈ کھلاڑی کو مجبورا ًشامل کرنا پڑتا تھا ۔کمزرو پاکستانی ٹیم کا مورال بھی گرتا جارہا تھا شاید عمران خان کی جگہ کوئی اور کپتان ہوتا تو وہ ورلڈ کپ کے بقیہ میچز کھیل کر جلد از جلد گھر جانے کو ترجیح دیتا۔

ادھر پاکستان میں رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ لوگ اپنی ٹیم کے لئے دعائیں کررہے تھے ۔ان سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ کسی طرح جنوبی افریقی کو شکست دیکر ٹورنامنٹ میں اپنی پوزیشن بہتر کرسکیں۔

برسبین میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو 212 رنز کا ہدف دیا ۔اس ہدف میں جہاں اینڈرہو ہڈسن کی نصف سنچری اور ہنسی کرونئے کے 47 رنز شامل تھے تو پاکستانی فیلڈرز نے بھی ناقص فیلڈنگ کے تمام ریکارڈز ٹور دئیے تھے۔یہاں تک کہ کمنٹیٹرز نے اس میچ میں پاکستانی فیلڈنگ کو کلب کرکٹرز سے بھی بدتر قرار دیا تھا۔

ان سب خامیوں کے باوجود قومی ٹیم 212 کا ہدف حاصل کرسکتی تھی لیکن پھر وہی اندھا قانون پاکستان کی شکست کا با عث بنا ۔دوسری اننگز میں بارش کے باعث جنوبی افریقا کی اننگز کے صرف 17 رنز اور پاکستان کے 14 اوورز گھٹادیئے گئے۔

پاکستان کو 194 رنز کا نیا ہدف ملا ۔انضمام الحق کے 48 رنز بھی پاکستان کو شکست سے نہ بچا سکے۔پاکستان ٹیم میچ تو ہار گئی لیکن انضمام کی اس اننگز نے مخالف ٹیموں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ 44 گیندوں پر 48 رنز کی اس مختصر اننگز میں انضمام الحق نے چند ایسے اسٹرکس کھیلےکہ عمران خان کی اس بات کی تصدیق کردی کہ انضمام ورلڈ کپ جتواسکتا ہے ۔جونٹی رہوڈز نے ہوا میں اڑتے ہوئے انضمام الحق کو رن آؤٹ کیا ۔رہوڑز نے تینوں اسٹمپس کو اکھاڑ دیا ۔میچ کے اگلے دن ان کی تصویر ہر اخبار میں شائع کی گئی کچھ نے جونٹی رہوڈز کو برڈز کا خطاب بھی دیا۔

پاکستان بارش کے قانون کے تحت 20 رنز سے میچ ہار گیا۔کرکٹ کی سمجھ رکھنے والے ہر شخص نے پاکستان کو میگا ایونٹ سے اسی روز بابر کردیا۔

 

 

 

مزید خبریں :