بلاگ
28 مارچ ، 2017

عمل نہیں صرف باتیں

عمل نہیں صرف باتیں

آتش بازی کے سامان میں دھماکا ہوتا ہے ، درجنوں ہلاکتیں اور بلڈنگز گرجاتی ہیں، شہ سرخیوں میں آتا ہے حکومت نے نوٹس لے لیا، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے موقع پر پہنچ کر معائنہ کیا، اسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کی، مرنے والے کو دس دس لاکھ اور زخمی کو دو دو لاکھ ملیں گے، بیان آتا ہے آتش بازی کے سامان کو شہر میں لانے پر پابندی عائد کردی گئی، آتش بازی کا سامان تین دن میں شہر سے باہر لے جایا جائے گا۔

جبکہ دوسری طرف دیکھیں تو ریل گاڑی آئل ٹینکر سے ٹکرانے کے باعث ہلاکتیں ہوتی ہیں لوگ زخمی ہوتے ہیں، پھر وہی رٹ کہ پھاٹک کا نظام ٹھیک کیا جارہا ہے، پھاٹک والے اور ٹرین ڈرائیور کو فون دئیے جارہے ہیں، ذمہ داروں کو سخت سزا ملے گی، مرنے والوں کی انشورنس ہے گھر والے فکر نہ کریں، لاش ملنے کے بعد پیسے ملیں گے، پولیس کے ہاتھوں کوئی بے گناہ مارا جائے یا پولیس تشدد سے اسپتال پہنچ جائے، بیان آتا ہے ایس ایچ او معطل کر کے انکوائری شروع کردی گئی ہے، تھانے کا کلچر تبدیل کیا جارہا ہے۔

یہ وہ باتین ہیں جن کو پچھلے 25 سال سے سن سن کر کان پک چکے ہیں، پہلے تو یہ باتیں کانوں کو بھلی لگتی تھیں کہ واقعہ طور پر کچھ ہونے لگا ہے، لیکن اب ایسا حادثہ یا واقعی ہوجائےتو بیانات سامنے آنے سے پہلے خود بخود یہ باتیں کانوں میں گونجنے لگتی ہیں، یہ باتیں پچھلی کئی دہائیوں سے سن رہے ہیں لیکن حادثات اب بھی ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے پہلے ہوتے تھے، کوئی بہتری نظر نہیں آتی کیونکہ حالات جوں کے توں رہتےہیں۔

کافی عرصہ پہلے موٹر وے پر ایک بس الٹنے کے باعث تیس سے زیادہ اسکول کے بچے جاں بحق ہوگئے،کہا گیا کہ بس کی کمانی ٹوٹ گئی تھی جس کے باعث اتنا بڑا حادثہ ہوا، یہ بھی کہا گیا کہ ڈرائیور پچھلے 24 گھنٹے سے سویا ہی نہیں تھا، اس کی آنکھ لگ گئی، ڈرائیور کی آنکھ کیا لگی، پیارے پیارے بچوں کی ہمیشہ کے لئے آنکھ لگ گئی اور ان کے والدین کی آنکھیں آنسو بہا بہا کر پتھر کی ہوگئیں۔

ہمارا نظام دیکھیں کہ 30 سال پرانی بس چل رہی ہے کوئی دیکھنے والا نہیں ہے، اب بھی سڑکوں پر دیکھیں تو بس اور وین اس حالت میں نظر آئیں گی جن کو عجائب گھر میں ہونا چاہئے وہ سڑک پر چل رہی ہیں، کسی کی لائٹس نہیں ہیں تو کسی کے شیشے نہیں ، باڈی دیکھیں تو گل سڑ چکی ہوتی ہے، یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ڈرائیور نے نیند پوری کی ہے یا نہیں ، اسی طرح گوجرانوالہ میں دیکھا گیا کہ آئل ٹینکر سے ریل گاڑی ٹکرا گئی پھر وہی بیانات دو ماہ تک پھاٹک کا نظام ٹھیک کردیا جائے گا، پتہ نہیں یہ کب ہوگا،ہم نے تو اس حادثے میں شیخوپورہ ریلوے اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر کے روم میں دیکھا کہ ایک اہلکار چابی کی طرح پھرکی گھما کر فون کررہا ہے، شاید یہ نظام 70 سال پرانا ہو،ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن فون کرنے کا نظام ہی ٹھیک نہیں ہوسکا ،ریل گاڑی پر بیٹھے دیکھا جائے تو پھاٹک پر کھڑا ریلوے کا تھکا ہوا اہلکار ہاتھ میں سبز یا سرخ جھنڈی گھماتا نظر آئے گا، ایسا لگتا ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر ہم پاکستان میں داخل ہورہے ہیں۔ اب انکوائری شروع ہوگی اور یہ بھی کہا جائے گا کہ آئل ٹینکربہت پرانا تھا جس کی وجہ سے ایکسل ٹوٹا اور حادثہ ہوگیا،لیکن اتنے پرانے آئل ٹینکر کو سڑک پر چلنے کی اجازت کس نے دی؟

ان تمام باتوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ یورپ، امریکا یا ترقی یافتہ ممالک میں آئے دن ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ اچانک بس گڑھے میں جاگرے اور ہلاکتیں ہوجائیں، بس یہی سمجھ آتا ہے کہ نظام ٹھیک ہے، وہاں فٹنس کے بغیر کوئی گاڑی سڑک پر نہیں آسکتی، ڈرائیور کو چیک کرنے کا نظام بھی موجود ہے، ریلوے اسٹیشن سے چرخی گھما کر فون کرنے کا نظام نہیں ہے، ریل گاڑی میں بیٹھیں تو کوئی جھنڈی لہرانے والا نظر نہیں آئے گا، خدارا باتیں نہ کریں عمل کریں اور یہ قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچائیں، مرنے والے کے لواحقین کو معاوضہ دے کر منہ بند کرانے کے بجائے نظام کو درست کرنے پر عمل کیا جائے، باتیں نہ بنائی جائیں۔