بلاگ
19 اپریل ، 2017

کیا کراچی آپریشن رک چکا ہے؟

کیا کراچی آپریشن رک چکا ہے؟

72گھنٹوں سے بھی زائد وقت گزر چکا ہےاور سندھ حکومت نے ان سطور کو تحریر کیے جانے کے وقت تک اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت رینجرز کے گرفتار کرنے اور تحقیقات کرنے کے اختیارات میں توسیع کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے یا سندھ اور مرکز کے مابین غیر حل شدہ مسائل کی وجہ سے ان میں توسیع نہ ہونے کا امکان ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کراچی آپریشن رک گیا ہے یا اب پولیس تک محدود ہے۔

پیر کے روز سندھ کے محکمہ داخلہ اور سندھ رینجرز کی جانب سے متضاد بیانات بھی بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نشاندہی کرتے ہیں خاص طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کے تین ساتھیوں کی گمشدگی کے بعد۔ لہٰذا اب عملی طور پر کراچی 2013 سے قبل کی پوزیشن پر چلا گیا ہے جب پولیس معاملات کنٹرول کرتی تھی اور رینجرز کا کردار کم کردیا گیا تھا۔

ساتھیوں کے لاپتہ ہونے کے علاوہ ، زرداری اپنی ایک سال طویل خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان میں اپنی آمد کے روز رینجرز کی جانب سے اپنے دوست کے دفتر پر چھاپے پر بھی ناراض تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس اقدام کو دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دیا تھا اور اب لاپتہ ہونے کے معاملے کے بعد وہ اب قائل ہیں کہ مخصوص قوتیں ان کے اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں کے لئے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زرداری خاص طور پر شک کرتے ہیں کہ یہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ہیں جو وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ان کے ’’دوستانہ تعلقات‘‘ ختم کرانے کے ذمہ دار ہیں۔

کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ کیوں وہ اور دیگر پی پی پی رہنما مسائل پیدا کرنے کے لئے نواز شریف کو ہدف نہیں بناتے اور چوہدری نثار کو ہدف بناتے ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ یہ مکمل طور پر بے بنیاد بھی نہ ہو کیونکہ نواز شریف 2013 کے انتخابات کے بعد زرداری سے قلبی تعلقات کے خواہش مند تھے اور مخصوص انکوائریز اور کیسز کھولنے پر مائل نہیں تھے۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی آپریشن لانچ ہونے کے بعد نیب نے اچانک کچھ پرانی انکوائریز اور کیسز کھول دئیے جن میں سے کچھ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں کے خلاف بھی تھے۔

اب یہ بات دلچسپی سے دیکھی جائے گی کہ چوہدری نثار کس طرح رینجرز کے اختیارات کم کرنے کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اسلام آباد سے کوئی بھی براہ راست مداخلت سندھ میں پیپلز پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچا سکتی ہے، یہ وہ چیز ہے جس کا زرداری اور پیپلز پارٹی برا نہیں منائیں گے کیونکہ اس سے ان کو مسلم لیگ ن اور وزیراعظم کے خلاف کیس بنانے میں مدد ملے گی۔ پیپلز پارٹی نے ویسے ہی مرکز کے خلاف پورے سندھ میں 30 اپریل کو دھرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

احتجاج سے قبل یہ دن پاناما کیس کے ممکنہ فیصلے کو مدنظر رکھ کر مقرر کیا گیا ہے۔ صورتحال نے یقینی طور پر کراچی کے جاری آپریشن پر غیریقینی پیدا کردی ہے اور اسٹیبلشمنٹ ہوسکتا ہے کہ خوش نہ ہو کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گرد حملوں کے حوالے سے کچھ سنگین ’’الرٹ وارننگز‘‘ دی جاچکی ہیں۔ پولیس نے رینجرز سے کراچی یونیورسٹی کی سیکورٹی لے لی ہے جو یہاں 1989 سے تعینات ہے۔

اصل میں کراچی یونیورسٹی میں 1989 میں ایک واقعہ ہوا تھا جب پی ایس ایف کے تین طلبا کو مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے عسکریت پسندوں نے گولی مارکر ہلاک کردیا تھا جس کے نتیجے میں کراچی میں رینجرز کی تعیناتی ہوئی تھی لہٰذا یہ واضح نشاندہی ہوتی ہے کہ اس مرتبہ سندھ حکومت اور آصف زرداری وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جیسے کو تیسا کی پالیسی اختیار کریں گے۔وہ پہلے ہی یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ ان کے لوگوں کو کسی صوبائی انٹیلی جنس ایجنسی نے نہیں اٹھایا۔

اگرچہ محکمہ داخلہ نے پریس ریلیز کے ذریعے میڈیا کے پیداکردہ اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ رینجرز کی ڈیوٹیوں اور اس کا فنکشن واپس لے لیا گیا ہے لیکن بیان میں رینجرز کو اے ٹی اے کی دفعہ چار (تین) کے تحت اختیارات جو ہر 90 روز کے بعد دئیے جاتے ہیں، سے متعلق کوئی ذکر نہیں ہے ، یہ اختیارات 15 اپریل کو ختم ہوگئے تھے۔ حکومتی بیان کے کئی گھنٹوں بعد رینجرز کے ردعمل نے ’’پاورٹسل‘‘پر موجود غیریقینی کیفیت سے متعلق میڈیا رپورٹس کی تصدیق ہوگئی۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایک انٹرویو میں اس ٹسل اور سندھ حکومت کی جانب سے اختیار کی گئی پوزیشن کی جانب اشارہ کیا تھا لہٰذا اب رینجرز کے اختیارات سی آر پی سی کے سیکشن 147 تک محدود ہیں جس کے لئے وہ کراچی میں 1989 سے موجود ہیں۔

مزید براں سندھ حکومت نے وضاحت کی تھی کہ اگست 2016 میں رینجرز ریلیوں کے دوران سندھ پولیس کو سپورٹ کر سکتی ہے، سڑکوں پر گشت کر سکتی ہے اور پکٹس قائم کر سکتی ہے۔ رینجرز قانون کے مطابق انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کر سکتی ہے۔

سندھ رینجرز نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ 15 اپریل کے بعد اے ٹی اے کے تحت اختیارات واپس ہوجانے کے بعد کسی سرچ، گرفتاری یا آزادانہ آپریشن میں مصروف نہیں ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’کراچی آپریشن‘‘اگر جاری رہا تو اسے پولیس جاری رکھے گی اور اگر رینجرز کی ضرورت پڑی تو اسے بلایا جاسکتا ہے۔

اگرچہ پیپلز پارٹی اور صوبائی حکومت کے حلقے اپنی پوزیشن کا دفاع کرتے ہیں اور اشارہ دیتے ہیں کہ رینجرز کو ایسے اختیارات نہیں دئیے جائیں گے جیسے پنجاب میں دئیے گئے ہیں جس بات کا انہیں اندازہ نہیں ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ انہیں آئی جی پی سندھ، اے ڈی خواجہ سے بھی مسائل درپیش ہیں۔