خصوصی رپورٹس
20 اپریل ، 2017

جج صاحبان کے سوالات، فریقین کی حاضری ،رہنماؤں کی سرگرمیاں

جج صاحبان کے سوالات، فریقین کی حاضری ،رہنماؤں کی سرگرمیاں

پاناما کیس میں معاملے کی تہہ تک جانے کےلئے معزز جج صاحبان نے درخواست گزاروں اور مدعا علیہان سے خوب سوالات کیے۔ پاناما کیس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی دلچسپی بھرپور رہی اور کیس کی سماعت کے کئی بڑے رہنما باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہے۔

پاناما کیس گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی اور سماجی حلقوں کا پسندیدہ موضوع رہا۔اس کیس کی سماعت کا آغاز 20 اکتوبر 2016کو ہوا اور 126 روز بعد 23 فروری 2017کو اس اہم کیس کافیصلہ محفوظ کیا گیا۔ یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا دھرنا بھی 126 روز تک ہی جاری رہا تھا۔

پاناما کیس کی کل 35سماعتیں ہوئیں جس میں 9 سماعتیں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ہوئیں۔ ابتداء میں سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین شامل تھےلیکن 28 اکتوبر کو چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیااور اس میں جسٹس اعجاز الحسن کےعلاوہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس شیخ عظمت سعید کو شامل کیا گیا ۔



۔30 دسمبر 2016 کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد31 دسمبر2016 کوجسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا اور پاناما کیس کی سماعت کے لیے نیا 5 رکنی بینچ تشکیل دیا جس کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کو دی گئی۔

پانچ رکنی بینچ میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن کے علاوہ جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس گلزاراحمد کا اضافہ کیا گیا، بینچ نے 4 جنوری 2017 سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا آغاز کیا۔



پاناما کیس کی 35 سماعتوں میں 132 گھنٹے صرف ہوئے اور اس دوران معزز جج حضرات ، درخواست گزار ، ان کے وکلاء اورمدعا علیہان نے 600 سے زائد سوالات اٹھائے جس میں معزز جج صاحبان نے 270 سوالات کیے۔ سب سے زیادہ سوالات جسٹس عظمت سعید کی جانب سے پوچھے گئے جنھوں نے 70 اہم سوالات کئے۔ ان کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فریقین سے 55سوالات پر جوابات مانگا جن کے بعد جسٹس اعجاز افضل نے 35 سوالات کیے۔110 سوالات دیگر جج صاحبان کی جانب سے کیے گئے۔

معزز ججوں کے بعد درخواست گزاروں کے وکلاء نے کیس سے متعلق 150 سوالات اٹھائے جبکہ درخواست گزاروں نے بھی 120 سے زائد سوالات کئےجبکہ مدعا علیہان نے 80 سوالات کے ذریعے پاناما کیس کے مختلف پہلوؤں پر عدالت کی رہنمائی کی۔

پاناما کیس کے دوران سپریم کورٹ میں سیاسی رہنماؤں کی حاضری بھی بھرپور رہی۔تقریباً 3 درجن سے زائد پارلیمنٹیرین باقاعدگی سے کیس کی سماعت سنتے نظر آئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اس کیس میں دلچسپی سب سے زیادہ رہی۔ وہ 35 میں سے 32 سماعتوں میں سپریم کورٹ میں موجود رہے اور 93 گھنٹے کیس کو دیئے۔

ان کے بعد شیخ رشید کی حاضری رجسٹر میں بھرپور رہی۔ 35 میں سے 31 سماعتوں میں موجود رہے اور 83 گھنٹے کیس کو توجہ سے سنا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون ظفر اللہ خان بھی تمام سماعتوں میں باقاعدگی سے موجود رہے اور 77 گھنٹے کیس کےہر پہلو کا جائزہ لیتے نظرآئے جس کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی دلچسپی بھی کیس میں کم نظر نہیں آئی۔ انھوں نے 35 میں سے 26 سماعتوں میں اپنی حاضری یقینی بنائی اور مجموعی طور پر 76 گھنٹے کا وقت عدالت میں گزارا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے پاناما کیس کے دوران 67 گھنٹے گزارے جبکہ شاہ محمود قریشی نے مجموعی طورپر 62 گھنٹے کیس پر توجہ مرکوز رکھی ۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی 25 سماعتوں میں 65 اور 59 گھنٹے تک کیس کو توجہ سے سنتے نظر آئے ۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے دیگر رہنما جیسے طلال چودھری ، دانیال عزیزاو ر مائزہ حمید پاناما کیس کی 35 میں سے 24 سے زائد سماعتوں میں موجود نظر آئے جبکہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پاناما کیس کے دوران مجموعی طور پر 13 گھنٹے اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے 8 گھنٹے دئیے۔

مزید خبریں :