انٹرٹینمنٹ
22 اپریل ، 2017

فلم ’نور‘ عوامی مسائل اٹھاتی صحافی کی کہانی

فلم ’نور‘ عوامی مسائل اٹھاتی صحافی کی کہانی

سچ کی کبھی شکست نہیں ہوتی، ہمارے اردگردایسے کتنے صحافی ہیں جو خود کو جاننے کے بعد کبھی نہیں بھولتے؟ عوام کے مسائل سے جڑی اصل خبر اور ان کی دلچسپی اور مزاح کی خبر میں تمیز سے با خبر ہیں؟

ہر طرح کا میڈیا وہی کیوں دکھا رہا ہے جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ کیوں نہیں بتا رہا جو جاننا عوام کے لیے ضروری ہے؟ جن مسائل سے ان کی روزمرہ کی زندگی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔

اتنے سارے سوالات ہم نہیں اٹھارہے، یہ تو ہراس شخص کے ذہن کا حصہ بنیں گے اور بنتے ہیں، جو ممبئی، کراچی، دہلی، استنبول، بیجنگ، ٹوکیو، لاس ویگاس جیسے بڑے شہریوں میں رہتاہے اور کئی تو ان شہروں میں موجود مسائل سے روز ’کشتی‘ بھی لڑتے ہیں، وہ لوگ بھی ان باتوں کو اپنے خیالات میں جگہ دیں گےجو سناکشی سنہا کی نئی فلم ’نور‘ دیکھیں گے۔

’نور‘ 43 کروڑ کے بجٹ سے بننے والی فلم جسے بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے مکالمے، ہدایت کاری اورمنظر نگاری میں 5 میں سے ساڑھے3 نمبر دئیے ہیں، ان تین چیزوں نے اوسط سے تھوڑی بہتر موسیقی اور کہانی کو پر لگادئیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فلمی ناقدین نے بھی اسے5 میں سے ساڑھے3 نمبر دئیے ہیں، جبکہ پہلے دن اس کی کمائی بھی ساڑھے 3کروڑ روپے کے قریب رہی جس میں بتدریج اضافے کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ہم سب جانتے ہیںکہ وہی فلم ہٹ یا سپرہٹ قرار پاتی ہے جو سو کروڑ، دو سو کروڑ یا چار سو کروڑ کا بزنس کرے، فلم کے تمام ہی شوز ہائوس فل جارہے ہوں، جس میں رومانس کا بادشاہ، آواز کا جادو، خوبصورت ہیروئن کے جلوے اور ایک ’آئٹم نمبر‘ ہو، لیکن ہم بھول رہے ہیںکہ ان سب مصالحوں کے ساتھ ہی ہمیں ایک مضبوط کہانی، جاندار اداکاری اور انسانی زندگی یا اس کے کسی شعبے سے اس کا ’جوڑ‘ فلم کو بار بار دیکھنے پر آمادہ کرتا ہے اور یہی چیزیں روزمرہ کی زندگی میں فلم کو موضوع گفتگو بناتی ہیں۔

ہاں ہم فلم بین اب بھی شاید ایسی ہی فلموں کے لیے بیتاب ہیںجو صرف ہمیں ہنسائیں ہی نہیں اور نہ ہی رلائیں بلکہ وہ ہماری، ہم سے ملاقات کا سبب بھی بنیں، جو سینما تھیٹر کے باہر موجود عام انسانوں کے مسائل کی جانب ہمیں متوجہ بھی کریں، ان کا دکھ درد بانٹنے کا حوصلہ اور جذبہ بھی دیں اور ساتھ ہی بتائے کہ وہ کون لوگ ہیں جو کروڑوں کی آبادی والے شہروں میں لاکھوں انسانوں کی زندگی اجیرن بنارہے ہوتے ہیں۔

ان سے صحت، پانی، بجلی اورسفری سہولتیں چھین رہے ہیں، انہیں گڑھےپڑی سڑکیں، دھوئیں سے بھرپور ماحول، کچرے کے ڈھیر، سیوریج ملے پانی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔

’نور‘ صحافت کا شعبہ منتخب کرنے والی ایک لڑکی کی کہانی ہے، جو خبر کو سونگھ کر نکالنے کا ہنر جانتی ہے، مگر روایتی میڈیا رویے کے تحت اس کی عوام سے جڑی کئی خبریں نیوز ایڈیٹر کی ٹیبل پر گرد آلود ہونے کیلئے پڑی رہتی ہیں، تاہم اس کا ادارہ اسے دلچسپ، ٹی وی کا وقت اور اخبار کےصفحات کا پیٹ بھرنے والی خبروں کے پیچھے لگادیتا ہے، ایسے میں اسے ’شہر‘ میں انسانی جان سے کھیلنے والے بڑے ’ریکٹ‘ کا پتا چلتا ہے اور پھر ،روایتی ’جنرل ازم‘ کی سیاست اور اس کی ’مجبوری‘، خبر سے جڑے ’انسان کی موت‘، صحافی کے اندرکی ’ٹوٹ پھوٹ‘ اور انسانی جذبات، ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش اور پھر احساس ذمہ داری اور جذبات کے ’عزم‘ کا روپ دھارنا، لفظوں کا ’تیر‘ بننا، معاشرتی شعور کا پروان چڑھنا اور حقیقی صحافت کی ہلکی سی جھلک سے واپسی کا آغاز ہونا،ایسے ہی کئی موڑ مڑتی یہ فلم اپنے دیکھنے والوں کو متاثر کرنے کا دم رکھتی ہے۔

فلم جو ہر بڑے شہر کے رہنے والوں سے سوال کرتی ہے کہ تم سب کچھ سہہ کر بھی بے دار کیوں نہیں ہوتے؟ خود کی اور کئی بے دار لوگوں کی درد ناک موت کا سبب کیوں بن رہے ہوں؟ خاص طور پر 2010ء میں فلم انڈسٹری میں دبنگ جیسی بڑی فلم سے دھماکے دار انٹری لینے والی ’سوناکشی سنہا‘ کی اداکاری جو سیدھی سی تو ہے مگر جاندار بھی ہے، وہ اداکارہ جس نے 7برس کے فلمی کیریئر میں اب تک دو درجن فلمیں بھی نہیں کیں، مگر جو بھی کام کیا بہت خوب کیا، یہی وجہ ہے کہ اس کی جھولی اب تک 12 سے زائد ایوارڈز سے بھرچکی ہے، لیکن ساتھ ہی ہم بتادیں کہ تحریرکا موضوع سوناکشی سنہا نہیں، فلم ’نور‘ ہے، جس میں واقعی اتنا دم تو ہر دیکھنے والے کو ملے گا ہی کہ وہ کہہ سکےکہ ’ نو ر‘ ’’یو آر سم تھنگ گیونگ می‘‘۔

مزید خبریں :