پاکستان
25 اپریل ، 2017

ڈان لیکس، حکومتی ناکامی قرار، فاطمی کے قلمدان کی تبدیلی کا امکان

ڈان لیکس، حکومتی ناکامی قرار، فاطمی کے قلمدان کی تبدیلی کا امکان

ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو مل گئی، خبر لیک کس نے کی؟ ذمے داری عائد نہ کی جاسکی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈان لیکس کا شائع ہونا حکومت کی ناکامی ہے۔

خبر رکوانے میں ناکامی پر وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی طارق فاطمی کا قلم دان تبدیل ہونے کا امکان ہے۔

پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کو عہدے سے ہٹایا جائے گا، جبکہ پرویز رشید کو پہلے ہی عہدے سے ہٹایا جاچکا ہے۔

حکومت کو ملنے والی ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ میں ڈان لیکس کا شائع ہونا حکومت کی ناکامی قرار دیا گیا ہے،خبر لیک کس نے کی؟ اس کی ذمے داری عائد نہ کی جاسکی۔

رپورٹ کا بنیادی نکتہ کہ خبر کس نے لیک کی، اس پر کسی کی ذمہ داری فکس نہ کی جا سکی ،تاہم رپورٹر کی طرف سے پوچھے گئے سوالات پر اسٹوری کو چھپنے سے روکنے میں ناکامی پر ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ خبر کا چھپنا مختلف حکومتی اداروں یعنی وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ کی ناکامی ہے۔

رپورٹ کی روشنی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کا وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لے لیا جائے گا مگر ان کا عہدہ برقرار رکھا جائے گا۔

پرویز رشید سےوزارت اطلاعات سے استعفیٰ پہلے ہی لیا جا چکا،پی آئی او راؤ تحسین کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائےگا۔

ڈان اخبار کے خلاف کیا کارروائی ہونا ہے، اس حوالے سے فیصلہ رپورٹ کی روشنی میں اے پی این ایس کے سپرد کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا کی سربراہی میں قائم کی گئی ڈان لیکس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں سابق وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ۔

رپورٹ میں ڈان لیکس سے جڑے کرداروں کے بیانات، ان کے موبائل فون ڈیٹا اور سیف سٹی کیمروں سے لی گئی تصاویر کا ریکارڈ بھی لف کیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وفاقی وزیرپرویز رشید کے موبائل پر صحافی سیرل المائدہ کے 11 پیغامات موصول ہوئے تھے جن میں سے اکثر کا جواب پرویز رشید نے نہیں دیا تھا۔

رپورٹ ملنے کے بعد وزیراعظم سے طارق فاطمی اوروزیرداخلہ چوہدری نثار کی الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں جبکہ وزیراعظم کی سربراہی میں مشاورتی اجلاس بھی ہوا۔

ذرائع کے مطابق طارق فاطمی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کا اس خبر سے کچھ لینا دینا نہیں، اس لیے استعفیٰ دینے کا کوئی جواز نہیں۔

مزید خبریں :