خصوصی رپورٹس
28 اپریل ، 2017

’بیگم جان‘ اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہی

’بیگم جان‘ اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہی

بالی وڈ کا طوائفوں اور کو ٹھوں سے ایک طویل رومانس رہا ہے، معاشرے کے ٹھکرائے اور دھتکارے ہوئے ان کرداروں کو بڑی اسکرین پہ وہ اپنائیت مل جاتی ہے جس سے وہ زندگی میں محروم رہتے ہیں، خواہ ان فلموں میں پاکیزہ ہو یا امرائو جان، بالی وڈ کی بہترین فلموں کا انتخاب کیا جائے تو کوٹھوں پر مبنی کہانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،حال ہی میں ریلیزہونے والی فلم ’بیگم جان‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

ایک طویل انتظار کے بعد آخر کاریہ فلم سینما حال کی زینت بن ہی گئی، مگر افسوس کہ یہ فلم اپنی طرز کی فلموں کے معیار کو برقرار نہیں رکھ سکی، نیشنل ایوارڈ ونر سربجیت مکرجی اس فلم کی کہانی، ڈائیلاگ اور ڈائریکشن کے تخلیق کار ہیں، فلم کی نمایاں کاسٹ میں ودیا بالن، نصیر الدین شاہ، گوہر خان، رجت کپور، اشیش ودیارتی اور چنکی پانڈے شامل ہیں۔

اس سے پہلے ودیا بالن کہانی، بھول بھلیاں، عشقیہ اور ڈرٹی پکچرز میں متفرق کرداروں کو نبھاتے ہوئے اپنی کارکردگی سے مداحوں کے دلوں پر راج کر چکی ہیں، آئیٹم نمبر کے اس دور میںودیا بالن صرف اور صرف اپنی اداکاری کے بل بوتے پہ اپنا لوہا منواتی آئی ہیں، ’بیگم جان‘ کے کردار کے ساتھ بھی انہوں نے پوری طرح انصاف کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے پرستاروں کو ’’اولالہ اولالہ‘‘ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اس فلم کے آخر میںجب وہ کوٹھے کو بچاتے ہوئے اپنی طوائفوں کی قیادت کرتی نظر آئیں تو ان کی اداکاری کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، مگر ودیا کی اداکاری سے ہٹ کر اس فلم میں یاد رکھنے کے قابل کچھ ہے نہیں۔

فلم کی کہانی ایک کوٹھے کے گرد گھومتی نظر آتی ہے جو کہ تقسیم کے دور میں انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر واقع ہے، اس کوٹھے کو ودیابالن معاشرے کی ٹھکرائی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ چلاتی ہیں اور اپنی آخری سانس تک یہ ساری طوائفیں اس کوٹھے کو خالی نہیں کرتیں، ’بیگم جان‘ شروع سے لے کرآخر تک ایک بہت لائوڈ فلم ہے، جس کا اسکرپٹ انتہائی کمزور اور ضرورت سے زیادہ بے باک نظر آتا ہے، فلم کے پہلے ہاف میں موضوع کو بلا وجہ کھینچا گیا ہے، ساتھ ہی ڈائریکٹر سیٹ پر ایک کوٹھے کی منظر کشی کرنے میں بھی پوری طرح ناکام نظر آتا ہے۔

تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں تاریخی نوعیت کے کوٹھے ہوا کرتے تھے جن میں زیادہ تر بڑے نوابوں اور مہاراجوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، یہی وجہ ہے کہ دیوداس اور پاکیزہ میں کوٹھوں کی شاندار عکاسی کی گئی ہے جبکہ اس فلم میںد کھایا جانے والا کوٹھا انتہائی معمولی نوعیت کا اور خستہ حال لگتا ہےجو کہ فلم کی کہانی کے حوالے سے بالکل بھی جچتا دکھائی نہیں دیتا، فلم میں گانوں کی بے محل آمد اور معیاری میوزک کی کمی نے فلم کے مضمون کو اور کمزور بنا دیا ہے، نصیر الدین شاہ جیسے لیجنڈری اداکار فلم میں ایک چھوٹا سا کردار نبھاتے نظر آتے ہیں جو کہ شائقین کی سمجھ سے بالکل باہر ہے۔

فلم کی کہانی کی اس وقت تک سمجھ نہیں آتی کہ جب پاکستان اور ہندوستان کے دو بڑے سرکاری عہد یداراس کوٹھے کو خالی کرانے کے لیے ایک بڑے بدمعاش ’کبیر‘ کی مدد مانگتے ہیں، اس بدمعاش کا کردار چنکی پانڈے نے ادا کیا ہے جو ایک طویل مدت کے بعد بڑی اسکرین پر نظر آئے۔

انیس کروڑ کی لاگت سے بنی اس فلم کے ساتھ بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جا رہیں تھیں کہ یہ باکس آفس پر چھا جائے گی لیکن کمزور اسکرپٹ، ناقص ڈائریکشن، بے محل موسیقی، غیر ضروری کردار اور انتہائی بے باک ڈائیلاگ کی وجہ سے یہ فلم شائقین کی توقعات پر پوری نہیں اتر سکی۔

ساتھ ہی ودیا بالن کے فنی کیریئر پر ایک سوالیہ نشان بھی آ جاتا ہے کہ مستقبل میں وہ کن کرداروں کو ترجیح دیتی دکھائی دیں گی؟ اگر ودیا ایسی ہی بے معنی فلموں کا انتخاب کرتی رہیں تو شاید ان کا فنـی سفر جلد اختتام پزیر ہو جائے گا۔

ایس ایم اشعرجیو ٹی وی میں پروڈکشن منیجر ہیں۔

مزید خبریں :