بلاگ
11 مئی ، 2017

احسان اللہ احسان کی واپسی: ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

احسان اللہ احسان کی واپسی: ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

 

یہ کوئی پہلی یا نئی حکمت عملی نہیں ہے۔

پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں ہمیشہ طالبان کے اختلافات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہی ہیں۔لیکن احسان اللہ احسان کی بغاوت، طالبان کی کمزوری عیاں کرنے کا ایک ایسا موقع تھا جسے ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا۔

احسان اللہ احسان جو کہ تحریک طالبان پاکستان اور پھر علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ جماعت الاحرار کے مرکزی ترجمان رہے ہیں، نے غالباّ ایسی پیشکش کی جس کے نتیجے میں ہتھیار ڈالنے کے عوض ان کی جاں بخشی کی گئی۔ یہ پیشکش قبول ہوئی اور اعترافی بیان ریکارڈ کیا گیا۔

چھ منٹ کے اس اعترافی بیان کی ویڈیو میں احسان اللہ نے نہ صرف اپنے عسکریت گروہ کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ پاکستان کے اس مؤقف کی بھی تائید کر دی کہ ملک میں دہشتگردی کے پیچھے بیرونی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔

احسان اللہ کے اس اعترافی بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔یہ بات سب کو پہلے ہی معلوم ہے کہ عسکریت پسند گروہ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ یہ بات بھی عام ہے کہ 2009 میں ہونے والے سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن کے بعد دہشتگردوں کو افغانستان میں پناہ ملی جہاں انہوں نے افغان خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی- این ڈی ایس اور را سے روابط قائم کیے۔ 

احسان اللہ احسان کا یہ مشہوراعترافی بیان صرف ان باتوں کو مزید مضبوط کرتا ہے جو ہم پہلے ہی جانتے ہیں۔

 ماضی میں دہشتگرد تنظیموں سے اس قسم کی بغاوت کے واقعات کم ہی سامنے آتے تھے۔ گروپ سے علیحدہ ہونے والے باقی لوگ کسی عوامی اعلان کے بجائے خاموشی سے ہی الگ ہوئے۔ آخری ہائی پروفائل عسکریت پسند تحریک طالبان پنجاب کا کمانڈر، عصمت اللہ معاویہ تھا جس نے 2014 میں ہتھیار ڈالے۔ کہا جا رہا ہے کہ عصمت اللہ معاویہ نے احسان اللہ احسان کو ہتھیار ڈالنے پر قائل کیا۔ اگر اس میں حقیقت ہے تو اب یہ ذمہ داری احسان اللہ احسان پر ہے کہ وہ اور عسکریت پسندوں کو شدت پسندی ترک کرنے پر قائل کرے۔

یہاں احسان اللہ احسان کی سوچ میں تبدیلی کے محرکات قابل غور ہیں۔2014 سے قبل ٹی ٹی پی ایک منظم اور مضبوط تنظیم تھی۔  خیبر پختونخوا اور فاٹا میں ریاستی رٹ بہت کمزور تھی۔ اسی دور میں کمزور حکومت نے طالبان کی طرف امن کا ہاتھ بڑھایا اور بیشترایسی شرائط کو تسلیم کیا جو طالبان کے حق میں تھیں۔ اس وقت احسان اللہ کبھی اپنی تنظیم سے علیحدگی کا نہ سوچتے۔ لیکن پھر یکے بعد دیگرے، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، ولی الرحمٰن اور قاری حسین جیسے نمایاں لیڈران امریکی ڈرون حملوں کا شکار ہوتے گئے، جس کے بعد قیادت کے لیے اندرونی جھگڑے شروع ہوگئے اور دھڑے بنتے گئے۔

اب ریاست کا پلڑا بھاری ہے اور اس کی جانب سے کی گئی کسی بھی پیشکش کو قبول کرنے کے سوا طالبان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

یہ عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ایک نئی حکمت عملی ہو سکتی ہے، اس کا استعمال بلوچستان میں بھی نظر آ رہا ہے جہاں علیحدگی پسند بلوچوں کو ہتھیار ڈالنے کے بعد قومی دھارے میں واپس لایا جا رہا ہے۔

احسان اللہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی شرائط کا ابھی کسی کو علم نہیں، لیکن ایسے لوگوں کو معافی دینا درست عمل نہیں ہوگا۔ احسان اللہ نے2008  سے اب تک ہر اندوہناک حملے کی ذمہ داری فخرسے قبول کی ہے۔ کیا ایسے شخص کے لیے معافی جائز ہے؟ جنہوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائی ہیں کیا وہ ایسے شخص کو کبھی معاف کرسکتے ہیں؟ جہاں ریاست کو ملک کے وسیع تر مفاد میں چند اہم فیصلے کرنے پڑتے ہیں وہیں ہمیں ایسے غمزدہ خاندانوں کے جذبات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔

ابھی تک حکومت خصوصاّ فوج نے دہشتگردوں کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ پکڑے جانے والے دہشتگردوں کو فوجی عدالتوں میں سزا دی جا رہی ہے۔ لیکن ایسے افراد کے بارے میں کیا پالیسی ہے جن کو گمراہ کرکے دہشتگردی کی طرف مائل کیا گیا؟ کیا ان لوگوں کے لیے عام معافی کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے؟ ایک ایسی نئی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کے تحت ایسے افراد کو معمول کی زندگی کی طرف واپس لایا جائے۔

انسداد دہشتگردی کے لیے صرف ایک پالیسی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہر مسئلے کا حل  طاقت کے استعمال سے نہیں نکالا جا سکتا۔