بلاگ
19 مئی ، 2017

حکومت نہیں،پولیس عوام کے لئے

حکومت نہیں،پولیس عوام کے لئے

پولیس کی بدانتظامی پر چیف جسٹس آف پاکستان اور چاروں عدالت ہائے عالیہ کے سربراہوں کو پیش کی گئی جامع رپورٹ میں پولیس کو حکومت کا نہیں، عوام کا خادم بنانے کے لئے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ اب انہیں لاگو کرنے کے لئے عزم و حوصلے کی ضرورت ہے جو اپنی جگہ خود ایک بڑا سوال ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں خود جمہوریت عوام سے ہے اور نہ عوام کے لئے وہاں کیا پولیس حکومت نہیں بلکہ عوام کے لئے ہو سکتی ہے؟ رپورٹ میں ’’پولیس عوام کے لئے‘‘ کا تاثر دیا گیا ہے لیکن گزشتہ سات دہائیوں سے ہم پولیس کو پروفیشنل اور غیرسیاسی نہیں بنا سکے۔

سندھ میں تو ہم آگے بڑھنے کے بجائے اُلٹے قدموں پرہیں۔ جہاں پولیس آرڈر 2002ء سے پیچھے ہٹ کر پولیس ایکٹ 1861ء اور پولیس رولز 1934ء پر چلے گئے۔

گزشتہ چند برسوں میں سندھ کے دس انسپکٹرز جنرل پولیس تبدیل ہوئے۔ اگر کوئی پولیس افسر سیاسی اشرافیہ کا وفادار نہیں تو اس کے عہدے کی مدت کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی تشکیل کردہ کمیٹی نے پولیس میں بدانتظامی کا مسئلہ حل کرنے کی وفاقی محتسب کو ہدایت کی تھی۔

سابق اعلیٰ پولیس افسران اور ارکان سول سوسائٹی پر مشتمل کمیٹی نے تھانہ کلچر میں تبدیلی، زیادہ عوام دوست بنانے اور ایف آئی آر اندراج کے طریقہ کار کو سہل اور سیاسی مداخلت سے پاک  رکھنے کے لئے مضبوط سفارشات نہیں دیں۔ 14 سفارشات میں اہم ترین جھوٹی ایف آئی آر پر 5 سال سزائے قید کی سفارش ہے۔

دوسری سفارش جس پر مناسب عملدرآمد ہو تو فرق پڑ سکتا ہے، وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں علاقہ ناظم کی شمولیت کے ساتھ ڈسٹرکٹ کمپلینٹ کمیشن کا قیام ہے لیکن اس وقت کیا ہوگا جب ایف آئی آر یا شکایت اس کمیشن کے کسی رکن کے خلا ف ہو؟

تھانے کو عوام دوست بنانے کے لئے کمیٹی نے سفارش کی کہ ہر تھانے کا مخصوص اور ناقابل منتقلی بجٹ ہو لیکن ساتھ ہی ’’آف دی گرائونڈ‘‘ وصولیاں سختی سے ممنوع اور قابل تعزیر ہونی چاہئے کیونکہ اس وقت تھانیدار سے کہا جاتا ہے کہ وہ تھانہ اپنے تئیں چلائے۔

ایس ایچ او کا درجہ بڑھانے اور تعیناتی کی مدت طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مکمل اور شفاف احتسابی نظام متعارف کرایا جائے۔

ایک سابق آئی جی سے حاصل سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد بنچ کی رپورٹ کے مطابق حیدرآباد میں قتل عام جس میں 10 سے 15 منٹ کے اندر 300 افراد قتل کر دیئے گئے تھے جو 30 ستمبر 1988ء کو پاکستان کی تاریخ میں بدترین قتل عام تھا۔

عدالت عالیہ نے ملزمان کے خلاف حکومت کی اپیل مسترد کر دی تھی جو سیشن عدالت سے بری قرار دیئے گئے تھے۔ یہ حساس نوعیت کا واحد کیس نہیں جو اس طرح سے بند کر دیا گیا۔ اس سے تحقیقاتی عمل، سیاسی مداخلت اور کرمنل جسٹس سسٹم پر بھی سوالات اُٹھتے ہیں۔

اگر کیس میں نامزد ملزمان بے قصور تھے تو بے گناہوں کے قتل عام کا قصوروار کون ہوا؟ مثال کے طور پر 20 ستمبر 1996ء کو میر مرتضیٰ بھٹو بعض پارٹی رہنمائوں کے ساتھ ’’پولیس مقابلے‘‘ میں قتل کر دیئے گئے۔

ایک ایف آئی آر پر اعلیٰ پولیس حکام، انٹلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اور 11 پولیس کے سپاہی گرفتار ہوئے۔ دوسری ایف آئی آر مرتضیٰ بھٹو کے محافظوں کے خلاف درج ہوئی۔ متعلقہ عدالت میں برسوں کی سماعت کے بعد دونوں فریقین کو بری کر دیا گیا۔

آج تک یہ معمہ ہی ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کو کس نے قتل کیا؟ رپورٹ میں مسائل کی نشاندہی سے انکشاف ہوا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے ساتھ ہی ’’پولیس کی بدانتظامی تحقیقاتی عمل سے شروع ہو جاتی ہے۔

اسی وجہ سے عدالتیں ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیتی ہیں لیکن رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ کسی ٹھوس وجہ کے بغیر چالان داخل کرنے میں تاخیر اور ملزمان کی 24 گھنٹوں میں عدم پیشی کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا۔

قبل از تفتیش مراحل میں درپیش مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی اور مناسب احتسابی طریقہ کار نہ ہونے کے باعث اختیارات کے ناجائز استعمال کا بھی ذکر کیا گیا۔ کمیٹی کی سفارشات درج ذیل ہیں:

(1) ہر قابل دست اندازی جرم کی ایف آئی آر درج ہو۔ (2) ایف آئی آر کے اندراج میں ناکامی کی پولیس ایکسیس سروس کو رپورٹ ہونی چاہئے۔ (3) اختیارات کے غلط استعمال کا ذمہ دار ایس ایچ او ہونا چاہئے۔ (4) اختیارات کے ناجائز استعمال پر فوری انصاف کے لئے مجسٹریٹ کے تحت جائزہ لیا جانا چاہئے۔

(5) ڈی ایس جے کی قیادت میں بشمول علاقہ ناظم ڈسٹرکٹ کمپلینٹ سنٹر قائم کیا جائے۔ (6) جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج پر 5 سال سزائے قید کی تجویز۔ (7) صوبے فورنسیک سروس ایجنسیاں قائم کریں۔ (8) تربیت اولین ترجیح ہونی چاہئے۔

(9) تھانوں کے اطراف اور اندر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں۔ (10) ایس ایچ او کی تقرری معینہ مدت کے لئے ہو۔ (11) باری سے ہٹ کر ترقی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ تبادلے سے قبل اس کا تحریری جواز دیا جائے۔ (12) تھانوں کا کوئی قابل منتقلی بجٹ نہیں ہونا چاہئے۔

(13) تھانوں کے محل وقوع کا ازسرنو جائزہ لیا جانا چاہئے۔ (14) پولیس اہلکاروں کو مکمل طبی اور دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ پولیس آرڈر۔ 2002ء اب تک کا بہترین پولیس نظام ہے۔

شہریوں کی پولیس سے متعلق شکایات دُور کرنے کے لئے سی پی ایل سی کا نظام بڑا مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اس کے دائرہ کار کو مزید وسعت دیتے ہوئے اس کے چیف اور ڈپٹی چیف کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔

جمیل یوسف اور ناظم ایف حاجی نے سی پی ایل سی کو موثر انداز میں چلایا۔ دیہی علاقوں میں غیردوستانہ ماحول کے باعث لوگ تھانہ کچہری سے رجوع کرنے سے کتراتے ہیں۔

پولیس کو سیاسی دبائو اور اثر و رسوخ سے نکالے بغیر آپریشن جیسے ردالفساد میں بھی کامیابی ممکن نہیں کیونکہ پولیس ہی وہ واحد قوت ہے جس کا وجود گلی محلے تک ہوتا ہے۔