صحت و سائنس
22 مئی ، 2017

کم منافع پر غریبوں میں ہونیوالی بیماریوں کیلئے ادویات نہیں بنتی

کم منافع پر غریبوں میں ہونیوالی بیماریوں کیلئے ادویات نہیں بنتی

انٹرنیشنل کونسل فارلائف سائنسز امریکہ کے صدر ٹیرنس تھامس ٹیلرنے کہاکہ لائف سائنسز کے شعبہ میں ریسرچرز کا بائیولوجیکل سائنس کا پس منظر نہیں ہوتا، جن میں کیمسٹ، انجینئرز اور آئی ٹی اسپیشلسٹ شامل ہیں جو سرکاری، تعلیمی اور نجی اداروں اور اتنظیموں سے وابستہ ہے۔

لہذا تعلیمی اور دیگر تدریسی اداروں میں فردواحد کی تربیت ایک مسئلہ ہوتا ہے جہاں خصوصی احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ سائنس کے لئے فنڈنگ ناگزیر ہے تاکہ سائنس دان معاشرے کی فلاح وبہبود کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کر سکیں۔

سائنس کا مقصد ہی بنی نوع انسان کی فلاح ہے اور سائنسدانوں پر معاشرتی تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔سائنسدانوں کو چاہیئے کہ وہ حکومت، عوام، صحافی اور دیگر سائنسدانوں سے مربوط روابط قائم کریں اور پالیسی میکرز سے بھی رابطے میں رہے تاکہ معاشرے کو یہ اعتماد ہو کہ سائنسدان اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے تین روزہ پانچویں انٹرنیشنل کونسل فارلائف سائنسز کانفرنس بعنوان ’سائنس کا ذمہ دارانہ استعمال، میڈیکل اور فارماسیوٹیکل پریکٹس اور تحقیق میں اخلاقی مسائل ‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے کہا کہ سائنس ایک منفی چیزنہیں مگر اگر ہم اسے منفی مقاصد کے لئے استعمال کریں تو اس سے زیادہ تباہ کن چیز کوئی اور نہیں یہ ہم سب کا فرض ہے کہ سائنس کا مثبت استعمال کریں۔ انٹرنیشنل کونسل فارلائف سائنسزپاکستان کے صدر ڈاکٹر انورنسیم نے کہا کہ حکومت کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے مخلصانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

ضیاء الدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضاصدیقی نے کہا کہ ہمارے ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے وسائل انتہائی کم ہیںمگر ہمارے سائنسدان اور ریسرچرز جس تندہی اور مہارت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

چیئر مین شعبہ جغرافیہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر جمیل کاظمی نے کہا کہ آج کے سائنسدان اور ریسرچرز نئے اور منفرد نظریات اور خیالات پیش کرنے سے قاصر ہیںبلکہ پرانی تحقیق سے ہی استفادہ حاصل کیا جارہاہے جو لمحہ فکریہ ہے، عصرحاضر میں دنیا کو جو ماحولیاتی مسائل درپیش ہیں ان کی وجہ انسانی لالچ، خودغرضی اور اصراف ہے۔

جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر آئی سی سی بی ایس پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا کہ ایک نئی دواکو بنانے میں 1.2 سے 1.8 ارب ڈالرز لاگت آتی ہے اور اس میں تقریباً آٹھ تابارہ سال کا عرصہ لگتا ہے۔ ادویات سازکمپنیاں اپنے بجٹ کا تقریباً 30فیصد اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی مد محض 13فیصد مختص کیا جاتا ہے۔

بہت سی ایسی بیماریاں اور وبائی امراض جو غریب آبادیوں میں پائے جاتے ہیں ان کے لئے ادویات نہیں بنائی جاتی کیونکہ اس سے زیادہ منافع ملنے کا امکان نہیں ہوتا۔ ادویات سازی اب ایک بہت بڑی صنعت بن چکی ہے جس کا مقصد محض زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرناہے اور انسانی ضروریات کو نظراندازکیا جارہاہے۔

ادویات سازی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے پر کسی بھی دوسرے کاروبار سے کہیں زیادہ منافع ملتاہے اور محض معاشی طور پر بااثر صنعتکار ہی اس صنعت کو شروع کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔

مزید خبریں :