بلاگ
01 جون ، 2017

بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی

بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی

پاناما اورجے آئی ٹی کے تناظر میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی میں وزیراعظم نوازشریف نے اپنی پارٹی کے سینیٹر نہال ہاشمی کو معطل کر کے درست قدم اٹھایا جو انہوں نے پاناما پیپرز کیس میں وزیراعظم کے بیٹے حسین سے پوچھ گچھ کرنے والی جے آئی ٹی کے بارے میں دیا تھا۔

وزیراعظم کے اس بروقت فیصلے سے آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا انعقاد کسی شور اور ہنگامے کے بغیر ہو جانے کی توقع ہے۔ جس سے صدر ممنون حسین خطاب کریں گے ۔ گو کہ یہ بھی امکان ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے خطاب کو پی ٹی وی سے براہ راست نشر نہ کئے جانے پر حزب اختلاف احتجاج کرے۔

باخبر ذرائع کے مطابق کشیدگی میں حالیہ اضافے کی ایک وجہ ایسی اطلاعات ہیں کہ جے آئی ٹی اس دوران وزیراعظم نواز شریف اوران کے دوسرے بیٹے حسن کو بھی طلب کر سکتی ہے جے آئی ٹی کوآئندہ 40دنوں میں اپنا کام مکمل کرنا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران ضرورت پڑنے پرنوازشریف کوطلب کیا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم کے ایک قریبی معاون نے بتایا کہ وزیراعظم خود عدالت عظمیٰ یاجے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے آمادہ ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس ایشو پر بٹی ہوئی ہے۔ صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے اور پھراس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ گزشتہ تین دنوں کے دوران حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اس کے وفاقی اور صوبائی وزرأا و رہنمائوں نے جے آئی ٹی کے مبینہ رویہ پر نہایت جارحانہ ردعمل کا اظہارکیا۔

ان میں خواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب، عابد شیر علی، خواجہ محمد آصف، دانیال عزیز، حنیف عباسی، جاوید لطیف اور طلال چوہدری شامل ہیں۔ پارٹی رہنمائوں کے لب و لہجے پرخود وزیراعظم نوازشریف کو مداخلت کرنا پڑ گئی۔ جس سے مسلم لیگی قیادت کی محض پریشانی اورگھبراہٹ ظاہر ہو رہی تھی۔ وزیراعظم کو چاہئے وہ اپنے وزرأ کو جے آئی ٹی پر حملہ آور ہونے سے روکیں۔

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے عمران خان کو اس انتباہ کے بعد کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ ن لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی کی جانب سے ایک ریکارڈ یڈ وڈیو بیان جو بدھ کو جاری ہوا۔ اس سے وزیراعظم کے لئے مزید مسائل جنم لیں گے۔ ان رہنمائوں کے بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں۔ جب نواز شریف کے بیٹے حسین کو جے آئی ٹی کا سامنا ہے۔

لگتا ہے حکمران جماعت کی قیادت نے جارحانہ رویہ اختیار کرلینے کا فیصلہ کرلیا ہے جیسا کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دوران دھرنا اختیار کر رکھا تھا۔اگر موجودہ بحران میں ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘ کی اصطلاح کسی پر پوری اترتی ہے تووہ سینیٹر نہال ہاشمی ہیں۔ ان کے ریمارکس ذاتی ہوں یا پارٹی حکمت عملی کے تحت دیئے گئے ہوں۔

اس سے وزیراعظم اوران کی پارٹی ہی کا نقصان ہوا ہے اب یہ کم و بیش واضح ہو گیا ہے کہ اپوزیشن کی مستقبل میں مہم تین ایشوز کے اطراف گھوم رہی ہو گی۔ یہ ایشوز پاناما پیپرز، کرپشن اور لوڈشیڈنگ ہوں گے۔

جواب میں حکمرا ں ن لیگ ترقی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے دعوئوں کوجواز کے طور پر پیش کرے گی۔ سیاسی طور پر نواز شریف نے اپنا سب کچھ گنوایا نہیں اور پارٹی کو بھی خصوصاً پنجاب میں یکجارکھنے میں کامیاب ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مایوس تو ہوسکتے ہیں لیکن حوصلہ نہیں ہارا ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن لیڈر عمران خان اوران کی تحریک انصاف نے بھی خود کو سمیٹ اورجوڑ کر رکھا ہے۔ پارٹی میں کوئی بڑا انحراف مشاہدے میں نہیں آیا۔ لیکن جس پارٹی کو خصوصاً پنجاب اور خیبر پختونخوا میں منحرفین کے مسئلہ کا سامنا ہے وہ سابق حکمراں جماعت پیپلز پارٹی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے بھی 11جون کو پارٹی انتخابات سے قبل اپنے مسائل ہیں جس میں سرفہرست دھڑ ے بندیاں ہیں کچھ نے تو اندرون جماعت انتخابات کو ہی غیر آئینی قراردے ڈالا ہے۔

پارٹی کے نمایاں رہنما اور اس کے منشورکے خالق حامد خان پارٹی انتخابی طریقہ کار سے مطمئن نہیں ہیں۔ بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی میں اپوزیشن کی صفوں میں شکست و ریخت کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پہنچےگا۔ اس کے ساتھ ہی حکمران جماعت کے حالیہ اقدامات اپوزیشن کو ایک دوسرے سے ہاتھ جوڑنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ایسے وقت جب حکومت کو کشیدگی کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں، وہ اسے یکجا کرنے اور قریب لانے ہی میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہے۔

مثال کے طورپر اطلاعات و معلومات کی آزادانہ فراہمی اور مضبوط نجی میڈیا کے دور میں پی ٹی وی پر اپوزیشن کا ’’بلیک آئوٹ‘‘ کر کے حکومت کیا حاصل کر لے گی؟ اپوزیشن جماعتوں کے اپنے مسائل ہیں گو کہ بعض سیاسی رہنما یک نکاتی فارمولے’’نوازشریف ہٹائو‘‘ پراتحاد کیلئے کام کررہے ہیں وہ قبل از وقت انتخابات کیلئے دبائو ڈال رہے ہیں لیکن وزیراعظم اپنی آئینی مدت سے قبل سبکدوش ہونے کیلئے تیا ر نہیں ہیں۔ وزیراعظم جن کا بیٹا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہے وہ پہلے ہی سے دبائو میں ہیں۔

دوسری جانب پورے ملک میں طویل دورانیہ کی غیراعلانیہ لوڈ شیڈ نگ کے باعث سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہنگامے پھوٹ پڑے اورامن وامان کا مسئلہ کھڑا کردیا۔ جماعت اسلامی نے تو کراچی میں یوم سیاہ کی کال بھی دے دی ہے۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی سڑکوں پر ہے اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف رائے عامہ کو متحرک کر رہی ہے۔

رمضان المبار ک  کے دوران لوڈشیڈنگ تو اپوزیشن خصوصاً عمران خان کے حق میں جا رہی ہے اسی لئے گزشتہ اجلاسوں میں وزیراعظم بجلی کے بحران پر بڑے برہم رہے۔اگر اس بحران پرقابو نہ پایا گیاتو یہ حکومت مخالف احتجاج میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔

سن2013 کے عام انتخابات میں عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے مضبوط حلقوں میں دراڑیں ڈالی تھیں۔ لیکن مرکز میں حکومت بنانے میں ناکام رہے، اب پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہیں لیکن بہت کچھ پاناما کیس کے نتیجے پر منحصر ہے۔