بلاگ
14 جون ، 2017

پلٹ کر جھپٹتے شاہین

پلٹ کر جھپٹتے شاہین

جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا…. لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔ لگتا ایسے ہے کہ علامہ اقبال کا شاہین پرندے کے متعلق یہ شعر کرکٹ کی دنیا کے پاکستانی شاہینوں کی کارکردگی پر بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے۔ کیوں کہ یہ ٹیم بنے بنائے میچ کو بگاڑنا اور پھر بگاڑ کر اسے بنانے کا گُر بخوبی جانتی ہے۔

پاکستانی ٹیم کا مزاج ہمیشہ سے ہی ناقابل فہم رہا ہے۔ مجال ہے کہ کرکٹ کا کوئی گرو اس بات کی پیشگوئی کر سکے کہ یہ ٹیم کیسا کھیلے گی؟ بھارت کے خلاف اس ٹیم کے ہاتھ پاوں ایسے پھولے ہوئے تھے کہ لگتا تھا کہ یہ ٹیم مقابلہ کرنا جانتی بھی ہے یا نہیں۔ دنیائے کرکٹ کے تقریباً تمام ہی پنڈتوں نے اس ٹیم کو موجودہ دور کی کرکٹ کے لیے نااہل قرار دیا۔

سابق بھارتی کپتان سارو گنگولی نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو اپنے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ گنگولی کے مزاج میں کسی حد تک تکبر موجود تھا مگر اس وقت پاکستان کی کاکردگی کو دیکھتے ہوئے ان کے خیالات سے اختلاف کرنا بھی مشکل تھا۔

کچھ ایسے ہی خیالات دیگر ماہرین کے بھی تھے۔ لیکن پھر سرفراز الیون  گر کر ایسے سنبھلی کہ اس نے ان تمام پنڈتوں کو غلط ثابت کردیا۔ بھارت کے بعد پاکستان کا مقابلہ جنوبی افریقہ سے تھا جو کہ آئی سی سی کی نمبر ون ٹیم ہے جب کہ پاکستان کی رینکنگ نمبر آٹھ ہے۔

رینکنگز کے حساب سے اسے یک طرفہ مقابلہ ہونا چاہیے تھا اور کسی حد تک ایسا ہی ہوا۔ لیکن اس انداز میں نہیں جیسا پنڈتوں  نے پیشگوئی کی تھی، پاکستانی ٹیم ایسے رنگ میں نظر آئی کہ سارے ناقدین انگشت بدندان دکھائی دیے۔ فیصلہ پاکستان کے حق میں آیا اور اس شکست کے بعد جنوبی افریقہ ٹورنامنٹ میں سنبھل نہ سکا۔

اس کے بعد پاکستان کا میچ سری لنکا کے ساتھ تھا۔ ریکنگز  کے اعتبار سے یہ دونوں ٹیمیں ٹورنامنٹ کی سب سے کمزور ترین ٹیمیں تھیں لیکن دونوں کے درمیان بھرپور میچ ہوا تاہم کانٹے دار مقابلے کے بعد جیت پاکستان کا مقدر بنی۔

بظاہر اس میچ میں ایک آسان ہدف کے تعاقب میں پھر پاکستانی ٹیم لڑکھراتی نظر آئی مگر کپتان سرفراز احمد نے محمد عامر کے ساتھ یادگار اننگز کھیلی اور توقعات کے برعکس اقبال کے یہ شاہین سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرگئے۔

اب سیمی فائنل میں مقابلہ تھا انگلش شیروں سے جو کہ 2015 عالمی کپ کے بعد دنیا کی خطرناک ترین ٹیم بن کر ابھری ہے۔ اسی ٹیم نے حال ہی میں پاکستان کے خلاف 444 رنز کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کیا پاکستان ایسی ٹیم کے خلاف گھبراہٹ کا شکار تھی؟ ہرگز نہیں !

سرفراز الیون سیمی فائنل میں ایک الگ ہی مزاج میں نظر آئی ایسے محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے ٹاس سے لے کر میچ کے ایک ایک اوور کے لیے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اس وکٹ پر کوئی بھی اور ٹیم ہوتی تو ٹاس جیت کر ضرور بیٹنگ کا سوچتی مگر سرفراز نے اس کے برعکس بولنگ کا فیصلہ کیا۔ انگلینڈ نے گروپ اسٹیج میں اپنی تمام حریفوں کو باآسانی شکست دی تھی لیکن یہاں اس کا مقابلہ ایسی َٹیم سے تھا جو پہلے ہی شاید توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھاچکی تھی۔

میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ جو نتیجہ اس میچ کا سامنے آیا کسی پاکستانی پرستار نے اس کی توقع نہیں کی ہوگی۔ بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ اور پلاننگ ایسی نظر آئی کہ گروپ اسٹیج میں ہر ٹیم کو باآسانی شکست دینے والی انگلینڈ یہاں اعتماد کھو بیٹھی۔ پاکستان نے میچ باآسانی آٹھ وکٹوں سے اپنے نام کیا اور ہر شعبے میں حریف ٹیم کو آوٹ کلاس کیا اور 18 سال میں پہلی مرتبہ چیمپئنز ٹرافی  کے فائنل تک رسائی حاصل کی۔

اس کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس ٹیم نے وہ کر دکھایا جو پاکستان کی سب سے اچھی ٹیمیں بھی نہ کرسکیں۔ یہ ٹیم چیمپئنز ٹرافی (منی ورلڈ کپ)  کے فائنل تک پہنچ گئی جو کہ بڑی بڑی ٹیمیں بڑے بڑے کھلاڑیوں کے باوجود نہ کرسکیں۔

پاکستان کا اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچ جانا کسی پاکستانی فین کے لیے معجزے سے کم نہیں۔ لیکن میرے خیال میں بھارت سے شکست کے بعد کوئی معجزا نہیں ہوا بلکہ ہمیں گیارہ کھلاڑی صرف کھلاڑی نہیں بلکہ ایک ٹیم نظر آئے۔

پاکستانی شائقین اس ٹیم سے فائنل میں بھی ایسی کی کارکردگی کی توقع کر رہے ہیں۔ کیا یہ ٹیم ان کی توقعات پر پورا اتر پائے گی؟ میں تو ایسی کوئی پیشگوئی نہیں کروں گا مگر اقبال کے یہ شاہین ایسے ہی جھپٹ کر پلٹتے اور پھر پلٹ کر جھپٹتے نظر آئے تو یقیناً ہم فائنل ضرور جیتیں گے۔

زین العابدین صدیقی جیو نیوز میں بطور پروڈیوسر کام کرتے ہیں۔