بلاگ
15 جون ، 2017

تم ناقابل یقین ہو

تم ناقابل یقین ہو

طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف

لوگ سمجھے میری کشتی بھنور میں ہے

بلاگ کی ابتدا اس شعر سے کرنے کا خاص مقصد صرف اور صرف آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں ہی پاکستان کرکٹ ٹیم کی کشتی کا بھنور میں پھنسنا دیکھنا ہے۔

گوروں کا دیس، گوروں کا کھیل اور گوروں کو ہی ہزیمت، یہ کارنامہ آئی سی سی کی رینکنگ میں نمبر 8 کی ٹیم نے کر دکھایا جس نے ایونٹ میں اس حریف کو چاروں شانے چت کردیا جس نے پورے ٹورنامنٹ میں سب کو ناکوں چنے چبوائے۔

جی ہاں ہم ناقابل یقین ہیں!

یہ جملہ دنیائے کرکٹ میں صرف ایشیا کی ایک ہی ٹیم کو زیب دیتا ہے جسے کھیل کی دنیا میں شاہینوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی ابتدا قومی ٹیم کے لیے کسی ڈراونے خواب سے کم نہ تھی جس کی بنیادی وجہ اس کا روایتی حریف بھارت سے تصادم تھا۔

اپنے پہلے ہی میچ میں لنگڑے گھوڑے کی طرح دکھنے والی سرفراز الیون کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جس پر نہ صرف شائقین کرکٹ ناراض ہوئے بلکہ ان لوگوں نے بھی قومی ٹیم پر تنقید کے نشتر چلائے جو کرکٹ کی الف ب سے بھی لا علم ہیں۔

’لیگ بی فور وکٹ‘ کی اصطلاح سے لاعلم نقادوں نے پہلے مقابلے کے بعد ہی پاکستان کی قسمت میں رسوائی کی پیش گوئی کردی لیکن ناقابل یقین قومی ٹیم نے بھارت سے شکست کے بعد کچھار سے نکل کر زخمی شیروں کی طرح دشمنوں پر وار کیا اور ناقدین کے بخیے ادھیڑ دیے۔

جنوبی افریقا سے بارش کے بعد ملنے والی فتح کو ناقدین نے بھیک میں ملنے والی جیت قرار دیا لیکن سری لنکا اور پھر ایونٹ کی ناقابل شکست ٹیم کو یک طرفہ مقابلے میں مات دے کر قومی ٹیم نے نہ صرف اپنی دھاک بٹھادی بلکہ پاکستان کرکٹ اور چیمپئنز ٹرافی کی تاریخ کا رخ ہی موڑ دیا۔

پاکستانی ٹیم 18 سال قبل چیمپئنز ٹرافی کی ابتدا کے بعد پہلی بار فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ انگلینڈ سے ہونے والے میچ میں سرفراز الیون کا حوصلہ اور جذبہ دیدنی تھا۔

بولنگ، فیلڈنگ اور بیٹنگ۔ ہر شعبے میں گرین شرٹس کی طوطی بولتا نظر آیا۔ گوروں کے دیس میں گوروں کو بدترین شکست دینے کا سہرا بلآخر پاکستان کے سر سجا اور اس کارنامے پر بڑے بڑے کرکٹ کے سورما بھی پاکستان کی مداح سرائی کرتے نظر آئے۔

لیجنڈ کرکٹرز بھی شاہینوں کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی خوب کھل کر حوصلہ افزائی کی۔

اس لیے اب ٹیم بھی چاہتی ہے کہ کرکٹ سمجھنے اور اسے دیکھنے والے پاکستانی ٹیم کی اس فتح پر انہیں نہ صرف داد دیں بلکہ فائنل کے لیے ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں کیونکہ پاکستان کا فائنل میں ایک بار پھر روایتی حریف سے مقابلے کا قوی امکان ہے۔

شاید جب آپ اس تحریر کی سطروں میں الجھے ہوئے ہوں تب تک اس بات کا فیصلہ بھی ہوچکا ہو۔

بہرحال، وسیم اکرم، وقار یونس اور سعید انور کے دور کو یاد کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ ٹیم کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس سے قطع نظر کے ہم بھارت سے شکست کھاچکے ہیں لیکن ہر رات کے بعد صبح ناگزیر ہے اس لیے اپنے کھلاڑیوں کی پیٹھ تھپتھپانے میں ہمیں کوئی آر محسوس نہیں کرنا چاہیے۔

کیونکہ پاکستان کی اس فتح پر نہ صرف ٹیم نے ہمارے دل جیتے بلکہ غیر ملکی کھلاڑی کو بھی اس بات کو ماننے پر مجبور کر دیا کہ پاکستان ٹیم واقعی ناقابل یقین ہے۔

سید عامر حسین جیو نیوز میں بطور پروڈیوسر کام کرتے ہیں۔