بلاگ
22 جون ، 2017

کھیل اور سیاسی حالات

کھیل اور سیاسی حالات

 

جب پاکستان آئی سی سی کی چیمپینز ٹرافی جیتا توحکومت کے قریب سمجھے جانے والے ایک تجزیہ نگار نے یہ دعوی کیا کہ چونکہ پا کستان کی مجموعی اور معاشی صورت حال اچھی ہورہی ہے اس لیے پا کستان کی کرکٹ ٹیم بھی اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔

دنیا کے کسی بھی ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال میں اس ملک کے سماجی رویوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ سماجی رویوں کی واضح چھاپ ہمیں اس ملک کے ادب، آرٹ، فلموں اورموسیقی میں بھی نظر آتی ہے۔ اسی طرح، کھیلوں میں کسی ملک کی ٹیم کی کارکردگی کو بھی اس ملک کے سماجی رویوں اورخاص طور پر اس ملک کی سیاسی اور معاشی صورت حال کے ساتھ وابستہ کرکے دیکھا جاتا ہے۔

2014  کی بات ہے کہ جب فٹ بال ورلڈ کپ میں برازیل کی ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی تو برازیل کے میڈیا اور سماجی حلقوں کی جانب سے یہ رائے سامنے آئی کہ برازیل کی معاشی صورت حال خراب ہے اور کرپشن اس کے اداروں میں سرایت کر چکی ہے  اور ان حالات کا اثر اس کی فٹ با ل ٹیم پر بھی ہوا۔

اسی طرح جب 1974 میں بھارت کی کرکٹ ٹیم کو برطانیہ کی ٹیم سے ٹیسٹ سیریز میں 0-3 سے شکست ہوئی تو بھارت کے کئی تجزیہ نگاروں کی جانب سے یہ رائے سامنے آئی کہ بھارت میں اندرا گاندھی کی حکمرانی کے باعث سیاسی ابتری کا دور دورہ ہے، اس لیے بھارتی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بھی انتہائی خراب ہو چکی ہے۔

جزوی طور پر یہ با ت درست ہے کہ کسی ملک کے سیاسی یا معاشی حالات جہاں ہر شعبے پر اپنا اثر قائم کر رہے ہوتے ہیں وہاں یقیناً کھیل بھی اس اصول سے مبرا نہیں ہوتے۔ مگر کیا کلی طور پر کسی ملک کی کھیلوں کی کارکردگی کو وہاں کی سیاسی و معاشی صورت حال کے ساتھ جوڑمنا منطقی ہے؟ دنیا کی مثالیں دینے سے پہلے ہم اپنے ملک کی ہی مثال سے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

پا کستان کے اکثر مورخین متفق ہیں کہ پاکستان کو اس کی سیاسی تاریخ میں سب سے بڑے بحران کا سامنا 1971 میں اس وقت کرنا پڑ رہا تھا کہ جب مشرقی پا کستان اس سے الگ ہونے جا رہا تھا اورایک کلاسیکل خانہ جنگی کا سامنا بھی تھا۔ ان کشیدگیوں کا اثرملکی کھیلوں پر بھی ہونا چاہیے تھا مگر اس تاریخی حقیقت سے ہم کس طرح منہ موڑیں گے کہ اسی سال میں پاکستان نے ہاکی کا ورلڈ کپ جیتا، جو کہ با قاعدہ طور پر ہاکی کا پہلا ورلڈ کپ تھا۔

1970 کی دہائی میں، ویسٹ انڈیز کے جزیروں پر مشتمل ریاستیں شدید سیاسی ابتری کا شکار تھیں۔ اس پوری دہائی میں آئے روز نت نئے مسلح فوجی انقلاب ان جزیروں کا مقدر بنے ہو ئے تھے۔ سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر جنگیں ہو رہیں تھیں۔ اس انتہائی ابترسیاسی صورت حال کے باوجود ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم نے اسی دہائی میں دو مرتبہ ورلڈکپ جیتا۔

1983کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والا ملک بھارت تھا۔ یہ وہ دورتھا کہ جب بھارت کو ایک انتہائی غریب ملک تصور کیا جاتا تھا اور وہاں علیحدگی کی درجنوں مسلح تحریکیں سرگرم تھیں۔ مگر بھارت کی یہ صورت حال اس کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے آڑے نہیں آئی۔

اسی طرح جب سری لنکا کی ٹیم نے 1996 میں قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ورلڈکپ جیتا، تو اس وقت سری لنکا شدید مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ تاملوں باغیوں کی انتہا پسند مسلح تحریک سری لنکا کے استحکام اور امن کے لیے بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود 1996 میں کرکٹ کا تاج سری لنکا کے سر سجا۔

ایک کالم میں اتنی گنجائش موجود نہیں ورنہ مزید مثالوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل میں خاص وزن نہیں کہ کسی ملک کے حالات، ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں پر بھی مکمل طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ مختلف ممالک کی ٹیموں کے مابین ہونے والے مقابلے اپنے اندر بھرپور قومی تفاخر کا احساس لیے ہوتے ہیں۔ حالیہ عہد میں اس کی ایک بڑی مثال 1986 کے فٹبال ورلڈ کپ میں ارجنٹائن اور برطانیہ کے مابین کوارٹر فائنل کا میچ ہے۔ یہ میچ برطانیہ اور ارجنٹائن کے مابین دس ہفتوں تک جاری رہنے والی فاک لینڈ جنگ کے صرف چار سال بعد ہوا۔ اس جنگ میں برطانیہ نے ارجنٹائن کو شکست دی مگر چار سال بعد فٹ بال ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں ارجنٹائن نے برطا نیہ کو شکست دی اور دعویٰ کیا کہ ہم نے برطانیہ سے جنگ کا بدلہ لے لیا ہے۔

 


عمر جاوید جیو ٹی وی میں سینیر ریسرچرہیں۔

 



جیو نیوز کا اس بلاگ میں بیان کے گئے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔