بلاگ
24 جون ، 2017

نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

ابلاغ عامہ کا سب سے اچھوتا اور خطرناک ذریعہ سوشل میڈیا ہے، کتابوں کے ذریعے ابلاغ بہت محدود تھا، اخبارات سے اس کو وسعت ملی، ریڈیو کافی تیز رفتار رہا لیکن ٹیلی ویژن کے اثرات بہت تیز اور گولی کی طرح اثر کرنے والے تھے۔

ابھی ہم ان اثرات سے ہی نبرد آزما تھے کہ سوشل میڈیا نے گویا وہ آئے انہوں نے دیکھا اور فتح کر لیا کے مصداق ہر چیز کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔

بیس برس پہلے کی دنیا کا تہذیب و تمدن اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا، اس کے اثرات بہت گہرے اور دور رس ہیں، میں ابلاغ عامہ کے استاد اور پریکٹیشنر کی حیثیت سے اس کا مشاہدہ کرتا رہتا ہوں اور میڈیا کی دنیا کا بیس، پچیس سال سے حصہ ہونے کی وجہ سے ان وجوہات کا جائزہ لینا اس شخص سے بہتر لے سکتا ہوں جو صرف تھیوری پڑھ چکا ہے اور اس کو پڑھا رہا ہے کیونکہ اس کے پاس عملی تجزبہ نہیں ہے۔

پاکستان میں یہ ایک نئی روایت روشن خیالی کی چل پڑی ہے، اس کے تحت نام نہاد روشن خیال لوگ ہمارے مشاہیر کا صبح و شام مذاق اڑاتے ہیں،کبھی اسلام پر تنقید کرتے ہیں، کبھی قائد اعظم محمد علی جناح کو انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں،کبھی شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو گلی محلے کی سطح کا شاعر ثابت کرتے ہیں،کبھی سر سید احمد خان اور کبھی شبلی نعمانی کی ان کے ہاتھوں درگت بنتی ہے اور جہلا ان کے پیچھے بندروں کی طرح چل پڑتے ہیں، اپنا دماغ استعمال کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

آج کل خود کو روشن خیال ثابت کرنے کا ایک آسان فارمولا یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال پہ چڑھ دوڑا جائے اور اس حقیقت کو فراموش کر دیا جائے یا لوگوں کی نظروں سے پنہاں کر دیا جائے کہ اقبال اپنے دور کے ایک بہت بڑے روشن خیال اور علوم جدیدہ کا دلدادہ دانشور تھے جو مسلمانوں کو چیخ چیخ کر سائنس کی طرف بلاتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست اعجاز الحق اعجاز نے اس حوالے سے مقالہ لکھا ہے جو حال ہی میں شائع ہوا ہے، اقبال نے ہمیشہ مغرب کی علمی ترقی کو سراہا ہے اور وہ نہ ہی مشرق سے بے زار ہیں اور نہ مغرب سے حذر کرتے ہیں۔

اقبال تو ہر شب کو سحر کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے جو تنقید مغرب پہ کی ہے تو وہ اس کے علم پر نہیں بلکہ وہ اس کے تہذیبی کھوکھلے پن پر کی ہے، اگر ہم ذرا گہرائی میں جا کر غور کریں تو یہ بھید کھلے گا کہ اقبال نے جو مغربی تہذیب پہ تنقید کی ہے وہ تو کچھ بھی نہیں، اس سے کہیں زیادہ سخت گرفت تو خود مغربی دانشوروں نے مغربی تہذیب پہ کی ہے۔

بہت کچھ ذہن میں آرہا ہے مگر یہاں اس وقت اظہار ممکن نہیں۔ ولیم بلیک کی نظم ’لندن‘اور ٹی ایس ایلیٹ کی دی ویسٹ لینڈ بھی پر ذرا غور کر لیں۔اگر اقبال نے یہ کہہ دیا کہ مسلمانوں نے استقرائی فکر کی بنیاد رکھی یہ تو خود مغربی مورخ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں ہی نے تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی ۔ جابر بن حیان کو فادر آف کیمسٹری اقبال نے تو نہیں کہا۔

ابوموسیٰ الخوارزمی کے نام پہ الگورتھم اقبال نے تو نہیں رکھا، وہ بائنری سسٹم جس پہ آج کل کمپیوٹر سائنس کی عمارت کھڑی ہے کس نے دیا؟ فادر آف آپٹکس اقبال نے ابن الہیثم کو کہا تھا؟ یا مغربی مورخین اور دانشوروں نے؟ آج ہم جس زوال کا شکار ہیں، اقبال تو اس میں سے مسلمانوں کو نکالنا چاہتے ہیں، ان کی ذاتی لائبریری میں آدھی سے زائد کتب سائنس اور علوم جدیدہ پہ ہیں۔

بجائے اس کے کہ یہ نام نہاد روشن خیال اپنے آباؤاجداد کا گریبان پکڑتے ہیں کہ انہوں نے سائنس اور فلسفے کے میدان میں کیا کیا؟ جو وہ نہ کرسکے تو خود کرکے دکھا دیں، چلیں ہم ان کی بات مان بھی لیں کہ وہ تو بے عقل تھے، تو آپ تو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں، آپ ہی وہ کچھ کر کے دکھا دیں جو آپ لوگوں کے بقول ہمارے اسلاف نہیں کر سکے کیونکہ آپ تو عقل مند ٹھہرے، ان کے ہاتھ تو آپ کے بقول مذہب نے باندھ رکھے تھے،آپ کے تو کھلے ہیں، وہ آپ کے نزدیک تنگ نظر تھے،آپ تو کشادہ نظر ہیں، اگر وہ بڑی ایجادات نہ کرسکے ، تو آپ کوئی شے ایجاد کرکے دکھا دیں، فقط ایک ہی شےجو رہتی دنیا تک آپ کا نام زندہ رکھ سکے۔

دور حاضر کا آئن اسٹائن یا میکس پلانک ہی بن جاؤ، کوئی نیا نظریہ اخذ کرو، کوئی نیا قانون دنیا کو عطا کرو، ہمیں فلسفے کے اگلے ہوئے سبق پڑھانے کے بجائے کوئی نیا فلسفہ لاؤ کہ دنیا عش عش کر اٹھے، نصف صدی پہلے مردہ ہو جانے والے افکار سے ہمیں مرعوب نہ کرو کہ کچھ علم ان کا ہم بھی رکھتے ہیں، آج آپ کی یونیورسٹیوں میں اب روشن خیالی ہی روشن خیالی ہے۔

کس نے آپ کی تحقیق کے نشتر کند کر دیے ہیں؟ کس ملا نے آپ کے ہاتھ سے قلم اور دماغ سے نیا خیال چھین لیا ہے؟ کس نے آپ کے افکار کو بے دست و پا کر دیا ہے ؟ جن کے ساتھ بیتی سو بیتی، اب تو آپ آزاد ہو اور اتنےآزاد کہ آپ کے ہاتھ ہیں اور آپ کے آبا کا گریبان، مگر اب کسی دھجی سے پرچم نہیں بنے گا بلکہ واقعی عِلم کا عَلم بلند کرنا ہوگا، تحقیق کے در وا کرنے ہوں گے۔

سامنے والے کا مکان بہت اونچا ہے تو اس کا حل یہ نہیں کہ آپ سامنے والے کے سامنے اس مکان کے لیے رطب اللسان رہیں اور اپنے گھر والوں کو ہر آئے دن احساس کمتری میں مبتلا کرتے جائیں، مگر اپنے مکان کو اونچا کرنے کے لیے ایک اینٹ بھی نہ لگائیں اور بس تنقید ہی کرتے جائیں۔

اے آج کے فراریت پسند اور مایوسیاں بانٹنے والے دانشور ذرا اپنے حصے کی بھی کوئی شمع جلاؤ،کوئی ایجاد کرو،کوئی نئی شے کوئی نیا نظریہ کوئی نیا قانون بنا کر زندوں میں نام پیدا کرو،ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یونانی تجربے سے گریز کرتے تھے کیونکہ وہ استخراجی استدلال پہ بھروسا کرتے تھے، مسلمان سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ سائنس میں تجربے کو رواج دیا، مثلاًجابر بن حیان نے بہت سے آلات تجربہ ایجاد کیے جن میں سے کئی ایک آج بھی مستعمل ہیں، مثلاً قرع انبیق وغیرہ۔

اسی بات کو علامہ اقبال نے بھی بیان کیا ہے، لیکن نام نہاد روشن خیال اس بات کو نہیں مانتے لیکن اگر یہی بات برٹرینڈ رسل کہے تو شاید وہ مان جائیں۔ رسل کی کتاب دی ایمپیکٹ آف سائنس آن سوسائٹی کا صفحہ نمبر 7 میرے سامنے کھلا ہے، آئیے دیکھیے وہ کیا لکھتا ہے:

"Aristotle maintained that women have fewer teeth than men; although he was twice married, it never occured to him to verify this statement by examining his wives' mouths"

یعنی رسل کے نزدیک ارسطو اتنا زیادہ قیاس پہ بھروسا کرتا تھا کہ اس نے اس قیاس کہ عورتوں کے منہ میں مردوں کے منہ کے مقابلے میں کم دانت ہوتے ہیں، کبھی اپنی دونوں بیویوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا منہ کھول کر یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ عورتوں اور مردوں کے منہ میں دانتوں کی تعداد برابر ہے یا نہیں۔

یہ اقبال نہیں بلکہ رسل مثال کے ذریعے ثابت کر رہا ہے کہ یونانی کس حد تک تجربے سے دور تھے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک سو سال پہلے اقبال ایسے ہی دانشوروں کو پیغام دے گئے

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)