بلاگ
15 جولائی ، 2017

گر بازی عشق کی بازی ہے!

گر بازی عشق کی بازی ہے!

پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ کہہ چکے ہیں کہ امریکا اور بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سی پیک اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی ترقی ہے۔

وطن عزیز میں جمہوریت ایسے تمام عناصر کو کانٹے کی طرح چبھتی ہے جو غیر ملکی عناصر کے ایجنڈے پر چلتے آئے ہیں، کہیں پڑھا تھاکہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، پاکستان میں ایسے نادان دوستوں کی کمی نہیں ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ 1947 ءسے ہی ہم اس حوالے سے خود کفیل ہیں۔

امریکا بہادر نے ہمیشہ ہمیں دھوکا دیا لیکن آج بھی ہمارے نادان دوست اس کو اپنا ہمدرد خیال کرتے ہیں، اس کے بیڑے نے نہ کبھی آنا تھا اور نہ ہی کبھی آیا اور نہ ہی آئے گا۔

ہمارے اس دوست نما دشمن نے آکٹوپس کی طرح وطن عزیز میں اپنا جال بچھا رکھا ہے، مختلف این جی اوز اور ہتھکنڈوں سے اپنا کام جاری رکھے ہے، اب تو ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی اس کے ساتھ کھل کر شامل ہو چکا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کو ہمیشہ کی طرح خطرات لاحق ہیں، جے آئی ٹی کو حکومت نے مسترد کر دیا ہے، اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم پر استعفے کا دباؤ ہے جو انہوں نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ میں کسی قیمت پر استعفیٰ نہیں دوں گا۔

جاوید ہاشمی نے پھر جمہوریت کے لیے آکسیجن کا کام کیا ہے اور بڑے واضح انداز میں وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو کوئی بھی نہیں کہہ پا رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ صادق اور امین صرف ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہے، افسوس صد افسوس کہ ملک کے جانثار اور وفادار سیاست دان جاوید ہاشمی کے لیے ان کی سابق پارٹی کے سربراہ نے جس طرح کے الفاظ کا انتخاب کیا، وہ صرف ان کا ہی خاصا ہے کیونکہ پاکستان میں تہذیب اور شائیتگی کی بچی کچھی روایات کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔
پاکستان میں 1977ء والے حالات ضرور پیدا کیے جا رہے ہیں لیکن یہ 1977ء نہیں بلکہ 2017ء ہے ،چین اس صورتحال کو سمجھ بھی رہا ہے اور وہ بھارت اور امریکا کی اس چال کو کامیاب نہیں ہونے دے گا، اس بات کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اچھی طرح سمجھ رہے ہیں، لوگ بھی آسانی سے اب کسی ایسے اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔

سوشل میڈیا کے ہلے گلے پر مت جائیں زمینی حقائق فیس بک کی دنیا سے بہت مختلف ہیں، پیپلز پارٹی کے ارباب اختیار سب کچھ جان کر بھی انجان بن رہے ہیں حالانکہ وہ تو 1977ء کے دکھ کو سہہ چکے ہیں،بس بات صرف اتنی ہے کہ عظیم بھٹو کی عظیم اور نڈر بیٹی بے نظیر زندہ نہیں ہے، وہ میثاق جمہوریت کو کبھی مٹنے نہ دیتی کیونکہ وہ اور نواز شریف اصل گیم کو سمجھ چکے تھے اور اب کسی کے جھانسے میں نہ آنے والے تھے۔

ایک کو تو منظر سے ہٹا کر وفاق کی پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کر دیا گیا، اب دوسری پارٹی اور اس کے لیڈر کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو پاکستان کو آگے لے کر جا رہا ہے، نواز شریف صاحب کو ڈٹے رہنا چائیے کیونکہ عشق میں ایسے مقام آ جاتے ہیں کہ اگر کسی نے زبردستی ہٹا بھی دیا تب بھی میاں صاحب خسارے میں نہ رہیں گے۔

فیض احمد فیض کا ایک شعر موجودہ حالات میں بہت یاد آ رہا ہے
گر بازی عشق کی بازی ہے،جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)