بلاگ
15 جولائی ، 2017

ڈار صاحب کے اعداد و شمار کی سائنس

ڈار صاحب کے اعداد و شمار کی سائنس

سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل پانے والی جے آئی ٹی نے تحقیقات شروع کیں تو عوام میں تجسس بڑھتا رہا۔ سب جاننا چاہتے تھے کہ اس کا نتیجہ کیا آئے گا۔ ایک جانب ن لیگ اور حکومتی نمائندے کہتے رہے کہ جے آئی ٹی میں کچھ سامنے نہیں آ سکتا اور دوسری طرف ان کے مخالفین اس حکومت کے ہوتے ہوئے ملک کی ترقی نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان نے ملک کو لوٹ لیا، پیسے بنا کر ملک سے باہر لے گئے اور اب احتساب شروع ہوا ہے تو شور مچا رہے ہیں۔

جوں جوں جے آئی ٹی کی تحقیقات آگے بڑھتی گئیں حکومتی ارکان اپنے دعوے کرتے رہے اور مخالفین اپنا راگ الاپتے رہے۔ بلاآخر دس جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ۔ تاہم اس کی کچھ تفصیل چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے منظر عام پر آ ہی گئیں۔ عام کیے گئے مندرجات کو دیکھ کر کہا گیا کہ یہ رپورٹ وزیراعظم، ان کے خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف ہے۔

رپورٹ سامنے آنے پر حکومتی وزراء نے وضاحتیں شروع کیں تو عجیب ماحول پیدا ہو گیا۔ کوئی کسی کا دفاع کر رہا ہے تو کوئی کسی طرح تمام افراد کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کسی نے کہا کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم کا نام نہیں لیا گیا اس لیے ان سے پوچھ گچھ کرنا نا انصافی اور ایک منظم سازش ہے۔ گویا تمام معاملات کے ذمہ دار ان کے بچے ہیں۔

دیگر رہنما اور وزراء تو جو کہہ رہے تھے وہ سب کی سمجھ میں آرہا تھا۔ یہ الگ بات کہ وہ اس سے اتفاق کریں یا مخالفت لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی تو وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کی پریس کانفرنس کی۔ حیران ہوں کہ ان جیسا انسان ایسی بات کرے جس کی قطعی سمجھ نہ آئے۔ پریس کانفرنس کے پہلے 45 منٹ میں وہ کہنا کیا چاہ رہے تھے؟ کس بات کو ٹھیک اور کسے غلط؟ کچھ سمجھ نہیں آئی۔ لیکن یہ بات ضرور سمجھ آئی کہ انہیں وزیر خزانہ کیوں بنایا گیا۔

جس طرح انہوں نے پریس کانفرنس میں کوئی بات سمجھ نہیں آنے دی اسی طرح وہ ملکی ترقی کے اعداد و شمار کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ بجٹ تقریر میں ہوتا کچھ ہے اور بجٹ دستاویز سے نکلتا کچھ ہے۔ مجھے تو کیا وہ اپنی اس صلاحیت سے سے آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی اداروں کو بھی اپنے جادوئی شماریات کے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔

بالکل اسی طرح اسحاق ڈار کی اپنی اس پریس کانفرنس میں دی گئی وضاحتیں ہم نے سمجھنے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ان کے بیان کیے گئے اعداد و شمار کی سائنس بس ایسی ہی لگی جیسے ہاکی کے میچ میں گیند کلیم اللہ سے سمیع اللہ کے پاس اور سمیع اللہ سے واپس کلیم اللہ کے پاس اور ان سے ہوتی ہوئی گول کیپر سلیم شیروانی کے پاس اور سلیم شیروانی نے مخالف کھلاڑی کو پاس دیا اور ماجد خان کی خوبصورت شاٹ پر چھکا۔ یوں پاکستان فٹبال میچ جیت گیا۔

اسحاق ڈار جو بھی کہنا چاہ رہے ہوں، مگر لگتا یوں تھا کہ انہوں نے بھی شریف خاندان سے ملتا جلتا بیان دیا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تمام کاروبار کی پالیسی دونوں خاندانوں نے اکٹھے بیٹھ کر بنائی تھی۔ مجھے یہ بات درست لگتی ہے کیوں کہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ انہوں نے 2003 میں بچوں کی شادی کرکے انہیں انڈی پنڈنٹ کردیا اور کاروبار کے لئے قرض حسنہ بھی دیا۔ یہ قرض کتنا تھا اس کی کوئی تفصیلات انہوں نے نہیں بتائیں۔

اسحاق ڈار کے بچوں نے 2003 میں ملنے والے اس قرض سے اپنا کاروبار شروع کیا اور چند ہی برسوں میں اسے اربوں روپے میں پہنچا دیا اور پھر 5 سال بعد 08-2007 میں واپس بھی دینا شروع کردیا۔

اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس میں یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے بچوں کو کتنے پیسے دیئے اور انہوں نے پانچ سالوں میں کتنے کمائے اور کتنے ان کو واپس ملے؟ اگر وہ یہ بتا دیتے تو ہمیں بھی کچھ اندازہ ہو جاتا کہ یہ ہندسوں کی ہیرہ پھیری نہیں بلکہ ایک معقول حساب کتاب ہے جیسا دنیا بھر میں رائج ہے۔ اسحاق ڈار نے بجٹ کے اعداد و شمار کی طرح اپنے اور اپن بچوں کا جو حساب کتاب سنایا وہ شاید ہی کسی کو سمجھ آیا ہو۔

یہ بات ہماری عقل سے بالاتر ہے کہ شریف خاندان، اسحاق ڈار اور ان کے بچوں کے پاس ایسا کونسا اللہ دین کا چراغ یا جادو کی چھڑی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کروڑوں روپے قرض حسنہ یا نقد تحفہ دیتے ہیں اور بچے پانچ سالوں میں بے پناہ منافع کے ساتھ یہ رقم واپس کرنا شروع کردیتے ہیں۔

اس میں کوئی شق نہیں کہ اسحاق ڈار ایک تجربہ کار چارٹرڈ اکاوٹنٹ ہیں اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بیلنس شیٹ کو کس طرح بیلنس کیا جاتا ہے، نفع نقصان کیا ہوتا ہے اور کس طرح پیش کیا جاتا ہے۔ 

سیانے کہتے ہیں کہ سچ چھپتا نہیں اور ایک دن آشکار ہو ہی جاتا ہے۔ سچ بولنے سے انسان کو پریشانی تو ہو سکتی ہے لیکن پشیمانی نہیں۔ اب شریف خاندان اور اسحاق ڈار پریشان ہوتے ہیں یا پشیمان اس کا اندازہ کچھ ہی عرصے میں ہو جائے گا۔

اگر شریف خاندان پر کرپشن کے الزامات جھوٹے ہیں تو انہیں عدالتوں کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہیے مگر میری خواہش ہے کہ احتساب کا یہ عمل شریف خاندان اور اسحاق ڈار پر ختم نا ہو بلکہ اب تمام سیاسی شخصیات اور خاندانوں کا حساب کتاب ہو جانا چاہیے۔ کم از کم قومی اسمبلی کے ان تمام ارکان کا جو کم از کم گزشتہ تین اسمبلیوں کے ممبر رہے اور ساتھ ہی ان تمام کا بھی جن کے نام پاناما لیکس میں سامنے آئے ہیں۔


رئیس انصاری، جیو نیوز لاہور کے بیوروچیف ہیں۔



جیو نیوز کا اس بلاگ میں بیان کیے گئے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔