بلاگ
19 جولائی ، 2017

’یادوں کا جشن‘: ایک منفرد آپ بیتی

’یادوں کا جشن‘: ایک منفرد آپ بیتی

سوانح عمری کی صنف کو بنیادی طور پر مغربی صنف مانا جاتا ہے کیونکہ مشرق کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ رہا ہے کہ یہاں پر مغرب کے برخلاف اپنی ذات کو نمایاں کرنا یا خوبیوں کوبیان کرنا ایک طرح سے معیوب مانا گیا ہے۔

ہماری تہذیب میں اپنی انا کو دبا کر رکھنا یا مارنا ہمارے نزدیک ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں بہت سے لوگوں نے سوانح حیات لکھیں مگر ان میں سے بہت کم ایسی ہیں جن کو ادب کے معیار پر پرکھنے کے بعد صحیح معنوں میں آپ بیتی یا سوانح حیات کہا جا سکتا ہے۔

بعض سوانح حیات ایسی ہیں کہ جن میں اپنے علاوہ کسی اور کو اس قابل سمجھا ہی نہیں جاتا کہ اس کی تعریف میں کچھ لکھا جا ئے اس لئے اپنی آپ بیتی لکھنے والا ایک طرح سے سپرمین دکھائی دیتا ہے جو ہر طرح کی بشری کمزوری سے پاک ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے کہ جنہوں نے سوانح حیات لکھتے ہوئے اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنی خامیوں کا بھی ذکر کیا ہو اور اپنی ذات کے ساتھ ساتھ معروض اور حالات کو بھی اہمیت دی ہو۔ کتاب ”یادوں کا جشن“ کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ سوانح حیات کی کسوٹی پر پورا اترنے والی کتاب ہے۔

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی آپ بیتی ”یادوں کا جشن“ ویسے تو 1983میں شایع ہوئی مگر اس کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی اور اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہی اب اس کتاب کو مئی2017 میں ایک اشاعتی ادارے کی جانب سے دوبارہ شایع کیا گیا۔ ”یادوں کا جشن“ مہندرسنگھ بیدی سحر (1909-1998) کی ایسی آپ بیتی ہے کہ جس میں اس وقت کے معروضی حالات بھی بھرپور طریقے سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔

پنجاب کے علاقے منٹگمری(ساہیوال) کے جاگیر دار گھرانے میں جنم لینے والے کنور مہندر سنگھ بیدی نے اپنی اس آپ بیتی میں1947 سے پہلے کے متحدہ پنجاب کے حالات کو اس قدر واقعاتی انداز سے پیش کیا ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ کتاب نہیں پڑھ رہے بلکہ کوئی فلم دیکھ رہے ہیں جس میں منظر کشی ہمارے سامنے ہی ہو رہی ہے۔

زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنور مہندر سنگھ بیدی نے صرف ایک شاعر یا ادیب کے طور پر ہی نہیں بلکہ مجسٹریٹ، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر جیسے انتظامی عہدوں پر تعینات رہتے ہوئے جس طرح اس وقت کے معروضی حالات کو پیش کیا ہے وہ ایک پوری تاریخ ہے۔

1947سے پہلے متحدہ پنجاب کے اہم شہروں جیسے لاہور، ملتان، روہتک، جہلم، کانگڑا، جالندھر  اور پھر تقسیم ہند کے بعد دہلی، سونی پت اور کرنال جیسے شہروں کا احوال اس لئے بہت دلچسپ ہے کہ کنور مہندر سنگھ بیدی نے ان شہروں میں اہم انتظامی عہدوں پر رہتے ہوئے بہت سے مشاہدات کئے اور پھر ان مشاہدات کو کتاب کی صورت میں پیش کر دیا۔

ان کی اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریز کے دور میں اضلاع کی انتظامیہ اور زیریں عدالتوں میں کام کاج کی کیا صورت حال ہوتی تھی۔ انگریز افسران کا رویہ اپنے سے چھوٹے ہندوستانی افسران کے ساتھ کیسے ہوتا تھا۔ضلعی سطح پر کیسے بعض اوقات پٹواریوں، تحصیل داروں اور مجسٹریٹوں کی کرپشن کے باعث لوگوں کے جائز کام بھی رکے رہتے۔

 بعض اوقات تو اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے درجے پر فائز افسران بھی اس ساری کرپشن میں باقاعدہ حصے دار ہوتے تھے، آزادی کے بعد اس کرپشن میں مزید اضافہ ہو گیا۔

اگست1947میں تقسیم کے بعد جب برصغیر کے کئی علاقوں کی طرح دہلی میں بھی فسادات ہو رہے تھے اور ان فسادات میں مسلمانوں کی جان و مال پر حملے کئے جا رہے تھے تو بھارتی وزیر اعظم نہرو نے ان فسادات کو  رکوانے کے لیے جب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان نہ جائیں تو اس کے جواب میں دہلی میں سرکردہ مسلمانوں کی جانب سے نہرو سے جو مطالبات کئے گئے ان میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کنور مہندر سنگھ بیدی کو دہلی میں سٹی مجسٹریٹ کے طور پر تعینات کیا جائے اور شہر کا تمام انتظام ان کے حوالے کیا جائے۔

کیونکہ مسلمانوں کو کنور مہندر سنگھ بیدی پر پورا اعتماد تھا۔ نہرو نے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے بیدی کو دہلی میں سٹی مجسٹریٹ کے طور پر تعینات کر دیا۔ بیدی نے دہلی میں فسادات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کئے۔ حتیٰ کہ مو ہن داس کرم چندگاندھی نے بھی کنور مہندر سنگھ بیدی کو اپنے پاس بلا کر ان کو شاباش دی کہ انہوں نے مسلمانوں کے گھروں سے فسادیوں کا قبضہ ختم کروا کر مسلمانوں کو اپنے گھر واپس دلا دیے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ1947کے فسادات کے دوران” آر ایس ایس“ اور مہا سبھا جیسی انتہا پسند تنظیمیں ایسے سکھوں اور ہندووں سے مسلم دشمنی کا کام لے رہی تھیں کہ جن کو پاکستان کے علاقوں سے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہندوستان میں پناہ لینے کے لیے آنا پڑ رہا تھا۔

 ایسے ہندوؤں اور سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانہ بڑا آسان ہوتا تھا۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کا تعلق بھی ایسے ضلع ( ساہیوال) سے تھا کہ جو پاکستان میں شامل ہونے جا رہا تھا۔ اور کنور مہندر سنگھ بیدی اور ان کے خاندان کو اپنی بہت بڑی جاگیر سے بھی ہاتھ دھونے پڑ رہے تھے۔

اس کے باوجود کنور مہندرسنگھ بیدی نے اپنے دل کو مسلم دشمنی کے جذبات سے پاک رکھا اور اپنے انتظامی اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے بہت سے مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

 کنور مہندر سنگھ بیدی تقسیم ہند کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے مابین دوستانہ تعلقات کے زبردست حامی رہے، انہوں نے ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد نہ صرف پاکستان کے کئی دورے کئے بلکہ اپنی کتاب ”یادوں کا جشن“ بھی پاکستان اور ہندوستان کی دوستی کے نام کی۔

کنور مہندر سنگھ بیدی اپنی ذاتی حیثیت میں پاکستان سے ادیبوں اور شاعروں کو ہندوستان بلا کر ادبی پروگراموں کا انعقاد کرواتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے شاعروں کی ان سے بہت قریبی دوستی رہی۔

 کتاب ”یادوں کا جشن“ کو پڑھتے ہوئے واضح طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے کہ جس کا پس منظر جاگیر دارانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں ہمیں وہ طبقاتی تعصب بھی دکھائی دیتا ہے کہ جو ایک جا گیردار کا خاصہ ہوتا ہے۔ جیسے کنور مہندر سنگھ بیدی اس بات پر بار بار فخر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی عام نہیں بلکہ جاگیردار گھرانے سے ہے۔

جاگیرداروں کے مخصوص شوق، جیسے جانوروں کو پالنا اور خاص طور پر اپنے شکار کے شوق پر بیدی نے کئی صفحات لکھے۔ کنور مہندرسنگھ بیدی نے اپنی کتاب میں بھارت میں زمینی اصلاحات کی بھی مخالفت کی۔ بیدی کے مطابق زمینی اصلاحات سے جاگیرداروں کی کمر تو توڑی گئی مگر سرمایہ داروں کو سرمایہ بنانے کی کھلی آزادی اور چھوٹ دے دی گئی جس کے باعث امیر مزید امیر اور غریب، غریب تر ہوتا گیا۔

خیر یہ تو کنور مہندر سنگھ بیدی کی طبقاتی سوچ کا اظہار تھا کہ وہ اپنی کتاب میں جا گیر دارانہ نظام اور اقدار کی حمایت کرتے نظر آئے مگر بیدی کی اس طبقاتی سوچ سے قطع نظر کتاب ” یادوں کی بارات“ میں تاریخ کے طالب علموں کے لیے دلچسپی کا بھرپور سامان موجود ہے۔