پاکستان
21 جولائی ، 2017

سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت مکمل ہوگئی جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا.

پاناما کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ پہلے ہی نااہلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں اور جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ گارنٹی دیتے ہیں وزیراعظم کی نااہلی کا جائزہ لیں گے جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے 10 جولائی کو رپورٹ جمع کرانے کے بعد عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے 17 جولائی سے جاری کیس کی 21 جولائی کو  مسلسل پانچویں اور آخری سماعت کی جس میں وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل مکمل کیے، اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے بھی دوسری مرتبہ اپنے دلائل مکمل کیے جب کہ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے جواب الجواب دیا اور شیخ رشید نے جوابی دلائل دیئے۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعتیں کیں۔

پہلی سماعت کی تفصیل پڑھیں: جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کے پابند نہیں، سپریم کورٹ

سلمان اکرم راجہ کے دلائل

سماعت کے آغاز پر سلمان اکرم راجہ نے ابتدائی دلائل میں کہا کہ کل کی سماعت میں نیلسن اور نیسکول ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی تھی، عدالت نے کہا تھا کہ بادی النظر میں یہ جعلسازی کا کیس ہے، میں نے کل کہا تھا اس کی وضاحت ہوگی۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دستخط کیسے مختلف ہیں۔

سلمان اکرم نے دلائل میں کہا کہ ماہرین نے غلطی والی دستاویزات کا جائزہ لیا، کسی بھی صورت میں جعلی دستاویز دینے کی نیت نہیں تھی، اکرم شیخ نے کل کہا ہے کہ غلطی سے یہ صفحات لگ گئے تھے، یہ صرف ایک کلریکل غلطی تھی جو اکرم شیخ کے چیمبر سے ہوئی۔

دوسری سماعت کی تفصیل پڑھیں: جے آئی ٹی بنانے کا مقصد وزیراعظم کو صفائی کا موقع دینا، سپریم کورٹ

جسٹس عظمت نے کہا کہ مسئلہ صرف فونٹ کا رہ گیا ہے، سلمان اکرم نے کہا کہ دوسرا معاملہ چھٹی کے روز نوٹری تصدیق کا ہے، لندن میں یہ معمول کا کام ہے چھٹی کے روز نوٹری تصدیق ہو جاتی ہے، سوشل میڈیا پر کل عوام نے مجھے بہت سی لیگل فرمز کے بروشرز بھیجے۔

دورانِ سماعت عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 2 منگوایا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ والیم نمبر 10کو بھی اوپن کریں گے، ہرچیز کو اوپن کریں گے۔ انہوں نے سلمان اکرم راجہ سے کہا آپ کی بات نوٹ کرلی کہ ہفتے کے روز بھی سالیسٹر دستیاب ہوتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حسین نواز نے یہ کبھی نہیں کہا ان کا سالیسٹر چھٹی کے روز دستیاب ہوتا ہے، جس لا ءفرم کی دستاویزات آپ پیش کر رہےہیں وہ تصدیق شدہ نہیں۔

عدالت نے سماعت کے آغاز کے کچھ دیر بعد ہی جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد نمبر 10 کھول دی جسے کمرہ عدالت میں سب کے سامنے کھولا گیا۔

اس موقع پر ریمارکس میں جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دسویں جلد میں جے آئی ٹی خطوط کی تفصیل ہوگی۔ انہوں نے وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کے کہنے پر اس کو کھول کر دکھا رہے ہیں جسے سب سے پہلے آپ کو ہی دکھایا جائے گا، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کا استحقاق ہے وہ کسی کو بھی دکھائے۔

عدالت نے دسویں والیم کا خود جائزہ لیا اور وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کو دسویں جلد کی مخصوص دستاویز پڑھنے کو دیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ابھی دسویں جلد کسی کو نہیں دکھائیں گے، انہوں نے کہا کہ عدالت سے زیادہ خواجہ صاحب کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔

دوران سماعت بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریفرنس نیب کو بھجوا دیا جائے جس پر سلمان اکرم نے مؤقف اپنایا میرا جواب ہے کہ کیس مزید تحقیقات کا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آج سلمان اکرم راجا نے اچھی تیاری کی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم نے پُر اسرار ثبوت اسپیکر قومی اسمبلی کو دیئے ہمیں کیوں نہیں دے رہے؟ وزیر اعظم نے ’’ہمارےاثاثے‘‘میں خود کو بھی شامل کیا تھا؟

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کل پوچھا تھا کیا قطری شواہد دینے کے لیے تیار ہے؟ سلمان اکرم نے دلائل میں کہا کہ قطری کی جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا، قطری کو وڈیو لنک کی پیشکش نہیں کی گئی، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ شواہد کو تسلیم کرنا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے۔

تیسری سماعت کی تفصیل پڑھیں: منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ

سلمان اکرم نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ بچے اپنے کاروبار کے خود ذمے دار ہیں، بچوں کو کاروبار کے لیے وسائل ان کے دادا نے دیئے، سال 2004 تک حسن اور حسین کو سرمایہ ان کے دادا دیتے رہے، اگر بیٹا اثاثے ثابت نہ کر سکے تو ذمےداری والدین پر نہیں آسکتی۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کی آمدن اثاثوں کےمطابق نہ ہو توکیا ہوگا؟  سوال یہ ہے کہ پبلک آفس ہولڈر نےاسمبلی میں کہا یہ ہیں وہ ذرائع جن سےفلیٹس خریدے، اس کے بعد وزیراعظم نے کچھ مشکوک دستاویزات اسپیکر کو دیں، ہم ایک سال سے ان دستاویزات کا انتظار کر رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خطاب میں کہا تھا بچوں کے کاروبار کے تمام ثبوت موجود ہیں، عوامی عہدہ رکھنے والے نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کیا تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہاں معاملہ عوامی عہدہ رکھنے والے کا ہے، وہ اپنے عہدے کے باعث جوابدہ ہیں،  عدالت اگر اس نتیجے پر پہنچی توعوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12 دو کا اطلاق ہوگا۔ سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو کرنے کے لیے باقاعدہ قانونی عمل درکار ہوگا۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ مریم بینیفیشل مالک ہیں یہ کیپٹن صفدر نےگوشواروں میں ظاہرنہیں کیا اس پر سلمان اکرم نے مؤقف اپنایا کہ اس سارے معاملے کے لیے قانونی عمل درکار ہوگا، بی وی آئی کے خطوط حتمی ثبوت نہیں، عدالت مطمئن ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کے 23 جون کے خط کے جواب میں کل والا خط ملا۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آج آپ نے اچھے دلائل دیئے۔

اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل

سلمان اکرم کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کےوکیل طارق حسن نے دلائل شروع کیے جب کہ اس  موقع پر اسحاق ڈار کا 34 سال کا ٹیکس رکارڈ کمرہ عدالت میں پہنچایا گیا۔

طارق حسن نے اسحاق ڈار کا 34 سالہ ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ بڑا بڑا ’’ٹیکس رکارڈ‘‘ہمارے لیے رکھا ہے؟ یہ سارادن ٹی وی کی زینت بنا رہے گا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے سوچ رہا ہوں کہ یہ سیکیورٹی والوں سے کلیئر کیسے ہوگیا؟

طارق حسن نے کہا کہ سنا ہے جے آئی ٹی نے بھی ایسے ہی ڈبے پیش کیے جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کیا آپ بھی جے آئی ٹی کو فالوکررہے ہیں؟ 

 اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے دلائل میں کہا کہ عدالت کی جانب سے کافی مشکل سوالات کاسامنا کرنا پڑا، عدالت میں دو جواب داخل کرائے ہیں، اپنے جواب میں عدالتی تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 5 سال میں اسحاق ڈار کے اثاثے 9 ملین سے837 ملین کیسے ہو گئے؟ اسحاق ڈارنے شیخ نہیان کے 3 خطوط کے علاوہ کوئی دستاویزات نہیں دیں، ملازمت کی شرائط کیا تھیں؟ طارق حسن نے مؤقف اپنایا کہ مجھے معلوم نہیں وہاں ملازمت سےمتعلق کیا کاغذات دیئے جاتے ہیں، جے آئی ٹی نے ایسا کچھ مانگا ہی نہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ آپ کا کام تھا کہ لوجیکل دستاویزات ساتھ لف کر کے دیتے جس پر اسحاق ڈار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ جے آئی ٹی کے پاس رکارڈ نہیں تھا تو نتائج کیسے اخذ کرلیے؟ طارق حسن کے جواب میں جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کتنی بار کہیں کہ ہم جے آئی ٹی کے نتائج پر فیصلہ نہیں کریں گے۔

طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار کسی قانونی فرم میں مشیر ہوتے تو یقیناً سب کچھ موجود ہوتا، عرب حکمرانوں کے مشیر بننے پر کیا کاغذی کارروائی ہوتی ہے اس کا علم نہیں، اسحاق ڈار 40 سال سے پروفیشنل اکاؤنٹنٹ ہیں، بطور وکیل دو لاکھ کماتا ہوں تو ظاہر کرتا ہوں۔ جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ 2 لاکھ سالانہ کماتے ہیں تو یہ شعبہ چھوڑ دیں۔

چوتھی سماعت کی تفصیل پڑھیں: ہمارے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے، سپریم کورٹ

طارق حسن نے مؤقف دیا کہ اسحاق ڈار کے خلاف کوئی مقدمہ ہے نہ شواہد، جب رکارڈ جے آئی ٹی کو دیا گیا تو حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، اسحاق ڈار نے گوشواروں میں اپنی غیر ملکی آمدن بھی ظاہر کر دی ہے، اسحاق ڈار نے بین الاقوامی آڈیٹر سے آڈٹ کروانے کی پیشکش کردی۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے آپ چاہتے ہیں یہ کیس چلتا ہی رہے اور کبھی ختم نہ ہو؟ آپ کا ایک نقطہ یہ تھا کہ جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، ایک منٹ کو حدیبیہ کیس خارج ہونے کو تسلیم کرلیں تو بھی اسحاق ڈارکے خلاف کافی مواد ہے، حقیقت میں آپ اثاثوں میں اضافے پر جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کرسکے، یہ آپ کے خلاف نئی قانونی چارہ جوئی کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے مؤقف اپنایا کہ اسحاق ڈار اپنی اسکروٹنی کروا کروا کر تھک چکےہیں، یہ سلسلہ بند ہوناچاہیے، بلاوجہ احتساب عدالت میں گھسیٹنا قبول نہیں۔ اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا آپ کا مؤقف ہے کہ حدیبیہ ملز کیس دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، آپ کہتےہیں کہ یہ ڈرامائی کہانی ہےجو ڈرامے کی طرح ہی ختم ہو جائے؟ تمام تحریری مواد کا جائزہ لیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسحاق ڈار کے بیٹے نے ہل میٹل کو فنڈز فراہم کیے جس پر طارق حسن نے دلائل دیئے کہ اس نوعیت کی صرف ایک ہی ٹرانزیکشن تھی، جے آئی ٹی میں اسحاق ڈار بطور گواہ گئے تھے، یہاں لگتا ہے ملزم ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار جے آئی ٹی میں استحقاق مانگتے رہے، سمجھ نہیں آتا کہ استحقاق کس چیز کا مانگا جا رہا تھا؟ 

طارق حسن نے مؤقف اپنایا کہ اسحاق ڈار اس ٹرانزیکشن سے مجرم کیسے ہو گئے، انہوں نے جے آئی ٹی سے کوئی بات نہیں چھپائی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ نے جے آئی ٹی کوشیخ النیہان کے پاس تقرری کا کوئی دستاویزی ثبوت نہ دیا، کیا آپ نہیں جانتے کہ اثاثے بڑھنے کا کوئی ثبوت ہونا چاہیے؟ طارق حسن نے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی کو ٹیکس گوشواروں کا رکارڈ فراہم کیا تھا، جے آئی ٹی کو اسحاق ڈار کی پیش کردہ دستاویزات رکارڈمیں شامل کرنی چاہیے تھیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ علی ڈار نے والد اسحاق ڈار کو تحفے میں رقم دی، جے آئی ٹی کے مطابق اسحاق ڈار نے اس رقم پر ٹیکس ادا نہیں کیا، 5 سال میں اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 800 ملین کا اضافہ حیران کن ہے۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد جسٹس عظمت سعید نے اسحاق ڈار کےوکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ طارق صاحب، آپ نے اسحاق ڈار کے ساتھ انصاف کر دیا ہے، ہمیں بھی ڈار صاحب کے ساتھ انصاف کرنے دیں، وعدہ کرتے ہیں آپ کے تحریری دلائل اور دستاویزات کا جائزہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیس میں رد عمل دیکھے بغیر صرف قانون پر چلے، اب بھی صرف قانون کا راستہ ہی اپنائیں گے، آپ سمیت سب مدعا علیہان کے بنیادی حقوق کا خیال ہے، آئین کے آرٹیکل 10 اے سمیت متعدد آرٹیکلز ہماری نظروں کے سامنے ہیں، ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جس سے کسی کے بنیادی آئینی حقوق کی تلفی ہو جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین اور قانون سے باہر نہیں جائیں گے۔

اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے مختصر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حدیبیہ کیس میں اپیل دائر کرنے کا سوچ رہے ہیں، ایک ہفتے میں حدیبیہ ملز کیس دوبارہ کھولنے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔ اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ سوچنے کا عمل کتنا عرصہ چلے گا؟

نعیم بخاری کا جواب الجواب

تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کے روبرو جواب الجواب میں کہا کہ نواز شریف نے ایف زیڈ ای کمپنی کو ظاہر نہیں کیا، وزیراعظم عدالت اور قوم کے سامنے صادق اور امین نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے ورک پرمٹ اور چیرمین ہونا بھی چھپایا، نواز شریف نے تنخواہوں کی رسیدیں بھی چھپائیں، اس پر عدالت نے کہا کہ دوسری طرف کا مؤقف ہے کہ تنخواہ کبھی نہیں لی گئی؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ تنخواہ وصول کرنے کی دستاویزات موجود ہیں۔

شریف خاندان کا جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراض: جلد 10 کو خفیہ رکھنا بدنیتی ہے، وزیراعظم 

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا اگر عوامی نمائندگی ایکٹ کا اطلاق ہو تو کیا یہ معاملہ الیکشن کمیشن کونہیں جائے گا؟ کیا یہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ الیکشن کے بعد بھی ایف زیڈ ای کمپنی کو ظاہر نہیں کیا گیا، اثاثے ظاہر نہ کرنا آرٹیکل 62 اور 63 کے زمرے میں آتا ہے، نواز شریف نے اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی کی۔

نعیم بخاری نے کہا کہ نوازشریف نے اسمبلی میں جدہ مل 63 ملین ریال میں فروخت کا جھوٹ بولا، جدہ مل سے 42 ملین ریال ملے جو 3 شیئر ہولڈرز میں تقسیم ہونے تھے جب کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے وقت بچے کم عمر تھے، اس وقت نواز شریف کے بچوں کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا، میاں شریف کو اس سے پہلے کبھی فلیٹس سے نہیں جوڑا گیا، حسین نواز نے نوازشریف کو ایک ارب روپے سے زائد کے تحائف دیئے، تمام رقم نواز شریف کو ہل میٹل کے ذریعے ملی، ہل میٹل سے ملنے والی رقم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے، یہ ناقابل یقین ہے کہ ہل میٹل کا 88 فیصد منافع نواز شریف کو مل گیا۔

تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ امریکا سے بھی رقم موصول ہونے کے شواہد ملے، شیخ سعید نے بھی نواز شریف کو 10 ملین دیئے،  سمجھ نہیں آتا ہل میٹل اتنا کماتی کہاں سے تھی؟

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا عوامی عہدہ رکھنے والے پر ملازمت کی پابندی ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے مؤقف اپنایا کہ معاملہ مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا، کیا وزیراعظم کے ملازمت کرنے پر پابندی ہے؟ ججز پر تو آئین میں واضح پابندی موجود ہے۔ اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم پر ایسی کوئی واضح پابندی عائد نہیں کی گئی۔

نعیم بخاری نے مؤقف اپنایا بہتر ہوتا نواز شریف یہ کہہ دیتے کہ فلیٹس میاں شریف نے خریدے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ مریم نواز کو بینیفشل مالک تسلیم کر بھی لیں توزیر کفالت ہونےکامعاملہ آئے گا، مریم نواز کے زیرکفالت ہونے کے واضح شواہد نہیں ملے۔ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ مریم نواز اپنے والد کی فرنٹ ویمن ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا دیکھنا ہوگا کہ90 کی دہائی میں نوازشریف کے بچوں کا ذریعہ آمدن تھا یا نہیں۔ نعیم بخاری نے جواب الجواب میں کہا کہ اسحاق ڈار اور شریف خاندان نے اثاثے بڑھانے کا ایک ہی طریقہ اپنایا، پیسا پہلے ملک سے باہر گیا اور پھر ملک میں واپس آیا۔

جے آئی ٹی کے کام کی تعریف

اس موقع پر جج صاحبان کی طرف سے جے آئی ٹی کے کام کی تعریف کی گئی۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ممکن ہے جےآئی ٹی سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں مگر مشکل ترین حالات میں زبردست کام کیا، دیکھنا ہو گا کہ جے آئی ٹی کا مواد کس حد تک قابل قبول ہے۔

شیخ رشید کے جوابی دلائل

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے عدالت میں اپنے جوابی دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی پر میری طرح کمزور انگلش والوں نے مٹھائی بانٹی، جے آئی ٹی کے بارے میں نواز شریف نے دھمکی آمیز بات کی، نواز شریف توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف پاناما سے اقامہ تک پہنچ گئے، انہوں نے دبئی والوں کو بھی چونا لگایا، نواز شریف نے دبئی والوں کو نہیں بتایا کہ پاکستان میں وزیراعظم ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ جس کی طرف دیکھو بے نامی دار ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ لاہور میں امین، گوجرانوالہ میں امین اور اسلام آباد میں چور ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے بار بار منی ٹریل مانگی جو نہیں آئی، قطری کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا کوئی جواب نہیں آیا جب کہ اسحاق ڈار نے عالمی بینک کو بھی چونا لگایا اور پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ قطری خط نکال دیں تو کیس میں کچھ نہیں ہے، میری درخواست ہی آرٹیکل 62 اور 63 کی ہے، وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیش ہو سکتے ہیں تو قطری کیوں نہیں؟ جے آئی ٹی نے قطری کے محل میں نہ جانے کا درست فیصلہ کیا، وزرا جے آئی ٹی کے ٹرائل کی بات کر رہے ہیں، کیس کو ٹریک سے ہٹانے کے لیے 50 ارب روپے نکالے گئے، دعا مانگی تھی کہ جج صاحب کیس کے دوران بیمار نہ ہو جائیں۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ شیخ صاحب ہمارے لیے دعا مانگتے رہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف عہدہ چھوڑ دیتے تو والد کی قبر تک نہ جانا پڑتا، وزیراعظم نا اہل نہ ہوئے تو انہیں معاف کردیں۔

وکلا کے دلائل اور جواب الجواب کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ججمنٹ ریزرو ہے۔

 وزیراعظم کے بچوں کا رپورٹ پر اعتراض: ٹیم نے مواد غیر مصدقہ اور نامعلوم ذرائع سے حاصل کیا

شیخ رشید اور سلمان اکرم میں مکالمہ

گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں شیخ رشید نے کہا تھا کہ سلمان اکرم راجہ نے کیس کا بیڑا غرق کردیا ہے جس پر شیخ رشید اور سلمان اکرم کے درمیان سماعت سے قبل مکالمہ ہوا جس میں سلمان اکرم نے کہا شیخ صاحب آپ کا کل کا بیان نظر سے گزرا، شیخ رشید نے جواب دیا کہ میں نے صرف کیس پر بات کی ہے اور آپ جانتے ہیں میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں۔

سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے موقع پر فریقین، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے رہنما سمیت دیگر اپوزیشن اراکین کمرہ عدالت میں موجود تھے جب کہ اس موقع پر عدالت عظمیٰ کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

 گزشتہ سماعت کے موقع پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے تھے کہ ہمارے سامنے کیس بادی النظر میں جعلی دستاویزات دینے کا ہے لیکن فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جانا چاہتے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی اور پی ٹی آئی کا احتساب کوئی نہیں مانے گا، وزیراعظم

جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد 17 جولائی سے ہونے والی کیس کی سماعت میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی، وزیراعظم، ان کے بچوں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکلا سمیت شیخ رشید نے اپنے دلائل اور جواب الجواب کا سلسلہ مکمل کیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل کو شریف خاندان کی منی ٹریل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے 10 جولائی کو دس جلدوں پر  مشتمل اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جس میں شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد بتایا گیا۔

مزید خبریں :