بلاگ
22 جولائی ، 2017

یار کو ہم نے جابجا دیکھا

یار کو ہم نے جابجا دیکھا

ہر روز ہزاروں افراد جنم لیتے ہیں لیکن ان میں کتنے ایسے ہوتے ہیں جو صحیح معنوں میں انسانیت کا درد رکھتے ہیں اور تاریخ رقم کرتے ہیں کوئی نہیں بتا سکتا۔ عمر بھر خاک کے پتلے کو مادیت پرستی کسی اور جانب کھلنے والی کھڑکی سے جھانکنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔

عبدالستار ایدھی کے بارے میں سینکڑوں کالم لکھے گئے، سوشل میڈیا پر لاکھوں کروڑوں خراج تحسین پیش کئے گئے، ان کی زندگی کے بہت سے روشن پہلو عیاں ہوئے، سیدھی سادھی زندگی جس میں کوئی تاریک گلی نہیں۔ پھٹا پرانا لباس مگر دھبوں سے پاک، ٹوٹے پھوٹے جوتے مگر دل کا آئینہ شفاف، حیران ہوں بندہ بشر اتنا صابر و شاکر اور متحرک ہوسکتا ہے۔ 

خیرات کے پیسے کسی نے لوٹ لئے اس کی کم عقلی پر ذرا سا دل دُکھا مگر ہمت ہار کر گھر نہیں بیٹھے پھر جھولی پھیلا دی۔ ان کے پختہ عزم پر سیاستدانوں، آمروں، سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں نے کئی بار کاری ضربیں لگائیں لیکن ان کے دامن کی پاکیزگی کو سوال نہ بنا سکے۔

کسی خاص سے دشمنی نہ طاقتور سے بیر صرف استحصال کرنے والوں پر غصہ کیونکہ ان کے عیش و عشرت میں غریب کا لہو نظر آتا تھا۔ معصوم بچوں کی آنکھوں میں تیرتی حسرتیں دکھائی دیتی تھیں۔ پاکستان کو لُوٹنے والوں سے شکایات، پاکستان میں رائج نا انصافی کے قانون سے اختلاف، ظالم کے خلاف اعلان بغاوت مگر حُب الوطنی کی انتہا کہ ہمیشہ وطن کو محبوب بنائے رکھا۔ 

کسی کڑے وقت میں اس کے خلاف ایک لفظ ادا نہ ہوا۔ 1947ء میں ہجرت کر کے آنے والے نے اس زمین کو اس طرح اپنایا کہ مہاجر کہلانے کی بجائے ایک سپاہی بن کر ظلم کے خلاف لڑتا رہا۔ وطن کے پرچم اور سلامتی سے بندھی انا نے کبھی غیروں سے عطیات قبول کرنے کی اجازت نہ دی۔ ہمیشہ اپنے لوگوں سے مانگا مگر جہاں بھی انسانیت کو خطرہ لاحق ہوا وہاں حاضر۔

اسرائیل، ایتھوبیا، بوسینا، امریکہ سمیت قدرتی آفات، حادثات اور جنگوں میں دم توڑتی زندگی کے لیے مرہم لے کر پہنچے تو کئی بار ان کے جذبۂ محبت پر شک کرتے ہوئے انھیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا مگر وہ سر خرو رہے۔

ظاہریت پر ستوں کے فتوے سنے مگر جواب کا وقت نہیں تھا کیونکہ وہ انھیں بھی استحصال کرنے والوں میں سمجھتے تھے جو عمل کی بجائے زبانی جمع خرچ کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوگ انھیں ولی اور صوفی کہتے رہے مگر وہ خود کو ہمیشہ ایک فقیر سمجھتے رہے جسے عطیات دینے والوں کی کمی نہ تھی مگر وہ بیچ سڑک جھولی پھیلا کر بھیک مانگ کر یہ تاثر دیتا رہا کہ انسان کی زندگی بچانے کے لیے کس حد تک جا کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس شروع کی جو ہر بندے کو ایک نظر سے دیکھنے پر قادر تھی۔ وہ دُکھ، پریشانی، کرب اور اذیت کی بُو سونگھ کر پہنچ جاتی تھی۔ کسی سے اس کا نام، فرقہ، نسل، شہریت اور مذہب پوچھنے کی بجائے اُس کی مدد کو فرض بنا لیتی۔ کیسا انسان تھا بیماروں، لاچاروں، کوڑھ کے مریضوں، مہینوں جلی سڑی لاشوں کو نہلا دھلا کر دفن کرتا رہا کہ انسان کا یہی امتیاز ہے کہ اسے مرنے کے بعد بھی احترام دیا جائے۔ ننھے فرشتوں کو کوڑھے کے ڈھیر سے اٹھا کر گلے لگا لیتا اور ولدیت میں اپنا نام لکھوا کے ان کی پرورش کرتا اس کے نام سے منسوب بیس ہزار سے زائد بچے زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ 

حج پر بھی وہ بیماروں میں دوائیاں تقسیم کرتا رہا اور اسے عبادت قرار دیا۔ کیسا انسان تھا جسے مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے سب اپنے لگتے تھے۔ واجبی تعلیم والا شخص دولت کی ناجائز تقسیم کو معاشرتی برائیوں کا ذمہ دار قرار دیتا تھا۔ وہ ہر معاشرے میں جاری جنگ کو حاکم و محکموم اور ظالم و مظلوم کی جنگ قرار دیتا تھا۔ اسے زندگی کی نفسیات، سیاسیات، عمرانیات اور معاشیات کے اصولوں سے مکمل آگاہی تھی۔

آخر ایک انسان اس قدر اپنی نفی کر کے زندگی کو اس حد تک کیسے وقف کر سکتا ہے۔ ساری عمر ایک چھوٹے سے کمرے میں گزار سکتا ہے۔ دوسروں کو زندگی کی آسائشیں مہیا کرنے والے کے چہرے کا اطمینان اور نور اس بات کی گواہی تھا کہ اس کا ضمیر، اس کی روح، اس کا باطن، اس کی سوچ اور اس کا رب اس سے کتنا راضی ہے۔ عام انسان کی کیا اوقات کہ وہ اس طرح تمام عمر خدمت کے رستے پر چلتا رہے۔ دھکے، جھڑکیاں، دھمکیاں اور بے رحم رویے برداشت کر کے اپنے مشن کو ترک نہ کرے۔ 

یہ تو صرف ایک عاشق کو ہی زیب دیتا ہے صرف عشق ہی وجود میں موجود تمام شر انگیز قوتوں کو خاکستر کرکے دل و نگاہ کو خیر کا منبع بنا دیتا ہے۔ عشق محبوب کی خوشی کے لیے بڑے بڑے عالموں اور صوفیوں کو گھنگھرو پہن کر تھیا تھیا ناچنے کو ان کا افتخار بنا دیتا ہے۔ عشق چمڑی ادھیڑنے والوں کے سامنے بھی عاشق کو ثابت قدم رہنے پر قائل کر لیتا ہے۔

عبدالستار ایدھی کی زندگی کا کوئی باب بھی کھولیں وہاں لفظ عشق ہی اجاگر دکھائی دے گا۔ رب سے محبت نے اس کے تن من کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ عشق اس کا وظیفہ تھا۔ وہ صحیح معنوں میں صوفی تھا۔ خالق کی پیدا کئی ہوئی ہر مخلوق سے محبت اُس کا ایمان تھا۔ 

اُس کی نگاہ ہر چہرے میں اپنے محبوب کا لشکارا دیکھ لتی تھی۔ خالق کی رضا اُسے ایک پل اس کی مخلوق سے غافل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اپنے رب کی خوشنودی اُسے اپنے من کو مار کر دوسروں کے لیے ہاتھ پھیلانے پر اُکساتی تھی۔ وہ صرف محبت کی تلقین کرتا تھا۔ وہ خوش قسمت تھا اُس پر مذہب اور کائنات کی اصلیت ظاہر ہوگئی تھی۔ حقوق العباد کی فضیلت ایسی عیاں ہوئی کہ آخری دم تک خدمت کو عبادت بنائے رکھا۔

جن کو اُن سے خطرہ تھا وہ آج بھی اُس کے خلاف بات کرنے سے نہیں کتراتے، کہیں اُن کا کاروبار نہ بند ہو جائے، ان کی آرام طلب زندگی نہ متاثر ہو جائے، ہر قدم پر تلقین کرنے والے موجود ہیں، نفرت اور تقسیم کی پٹیاں پڑھانے والے متحرک ہیں اور محبت کا درس دینے والے خاموش۔ 

جس کی وجہ سے نفرت پھیلتی جاتی ہے، انسانیت کی بات کرنے والے کو مذہب دشمن سمجھنے والوں کو اجارہ داری ہے۔ مگر جو محبت ایدھی کو ملی وہ کم کم کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ ہر آنکھ اُن کے احترام میں نم ہے، ہر دل ان کے لیے محبت کے احساس سے لبریز ہے، ہر لب پر اُن کے لیے حرفِ خلوص اور عقیدت ہے۔ 

آج بلّھے شاہ کا جنازہ نہ پڑھانے والے کا نام بھی کسی کو یاد نہیں مگر بلّھے شاہ لوگوں کے دِلوں میں بستا ہے۔ ایدھی بھی زندہ رہے گا اور معاشرے میں اس کا کردار ہمیشہ ایک مثال کی طرح لوگوں کو نیکی اور خدمت کی طرف راغب کرتی رہے گی۔ 21 توپوں کی سلامی دینے والے جنرل صاحب سے گزارش ہے کہ وہ معاشرے میں نفرت کی ٹھیکیداری کرنے والوں کے خلاف بھی ضربِ عضب کی شروعات کریں۔ آخر انہی کے وجودِ پاک کے ذریعے استحصال کا نظام چلتا ہے اور عوام الناس اُسے چپ چاپ قبول کر لیتی ہے۔ آئیے ایدھی سے محبت کو عملی شکل دیتے ہوئے اپنی آمدنی کا کچھ حصہ لاچاروں اور غریبوں کے لیے وقف کر دیں۔

ایدھی صاحب سڑک پر بھیک مانگتے رہے ہم اپنے آپ سے سوال نہیں کر سکتے۔ جب شر ختم ہو جائے تو انسان اپنے عمل سے کسی کا نقصان کر ہی نہیں سکتا۔ اُس کے وجود سے صرف نور کی شعاعیں نکلتی ہیں جو اجتماعی خیر کا حصہ بن کر زندگی کو بر قرار رکھتی ہیں۔ مجھے آسمان میں ایک ستارے کے اضافے کا گمان ہوتا ہے۔ کاش ہم سب اپنے دل کو ایدھی کی طرح شفاف بنا لیں تو ہمیں بھی یار کے علاوہ کچھ اور نظر ہی نہ آئے۔


جیوز نیوز کا اس بلاگ میں درج خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔