بلاگ
26 جولائی ، 2017

ماموں — جسے لوگ رک رک کر سلام کرتے تھے

ماموں — جسے لوگ رک رک کر سلام کرتے تھے

ٹریفک پولیس کا اہلکارمحمد خان ابوالحسن اصفہانی روڈ کے اس چوراہے پر جانے کب سے کھڑا تھا۔ شاید اس وقت سے جب میرے ننھے بیٹے نے اسکول جانا شروع کیا۔یا شاید اس سے بھی پہلے سے۔

میں اپنی کھڑکھڑاتی، پھڑپھڑاتی اسکوٹر پر بیٹے کو اسکول چھوڑنے جاتا توچوک پر پہنچتے ہی وہ انکل خان کی طرف انگلی اٹھا دیتا۔

ضد کرتا اور ان سے ہاتھ ملائے بغیر آگے نہ جانے دیتا۔محمد خان مسکراتا اور بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتا۔’’ بڑے صاحب کی گاڑی آگئی ہے۔ اب سب سے پہلے بڑے صاحب آگے جائیں گے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ دوسری طرف کا ٹریفک روک دیتا اور ہمیں جانے کا اشارہ کر دیتا۔ میرے بیٹے کے گالوں پر جو خوشی اور دمک اس باریش ٹریفک اہلکار سے مل کر آتی تھی اس کا تصور مجھے سارا دن مسرور رکھتا۔

اسے سرکار نے سفید یونیفارم دی تھی پہننے کے لئے لیکن قدرت نے اس کے چہرے پر سفید داڑھی سجا کر اسے جو وقار دیا تھا وہ سفید وردی نہ دے سکی۔دھول، مٹی ، دھوپ اور بارش کبھی کبھار محمد خان کا یونیفارم خراب کر دیتی۔

لیکن اس کی ’’ڈیوٹی‘‘ کو کوئی آندھی، کوئی طوفان کبھی خراب نہ کر پایا۔

پسینہ ہو یا گرمی، گرد و غبارہو یا خراب حالات

کوئی موسم ، کوئی طغیانی ، کوئی ہڑتال اس کو فرائض کی ادائیگی سے کبھی نہ روک سکی۔
وہ ہمیشہ چوک پر یونہی ہنستا مسکراتا ملتا۔

میں کبھی کبھی سوچتا کہ ٹریفک پولیس کا یہ کیسا اہلکار تھا،نہ کوئی رعب نہ دبدبہ،نہ دھونس نہ دھمکی۔

سب کا دوست۔ وہ کبھی کسی پر غصہ کرتا دکھائی دیانہ کسی سے اونچی آواز میں بات کرتا سنائی دیا۔

اسے بیشتر لوگ محبت سے ماموں کہہ کر پکارتے تھے۔

میرا بھتیجا گواہ ہے کہ وہ اکثر مسجد میں نظر آتا ۔ نماز پڑھتا، سب سے ہاتھ ملاتا اور پھر چوراہے پر جا کھڑا ہوتا۔مگر آج عشاء کی نماز میں بہت سے نمازی ہونے کے باوجود مسجد میں سناٹا تھا، ویرانی تھی۔آج ماموں کو نماز مغرب کے بعد، مصروف چوک کے بیچوں بیچ، دوران ادائیگی فرض شہید کر دیا گیا۔

آج محمد خان خاموشی سے وہ چوک چھوڑ گیا۔۔۔۔ ہمیشہ کے لئے۔

ٹریفک پولیس کے اس فرض شناس، نہایت ذمہ دار، مخلص اور ایماندار اہلکار کی شہادت پر دل غم سے بوجھل ہے۔

کیا قصور تھا اس بے ضرر سے سرکاری ملازم کا جس کو اکثر لوگ رک رک کر سلام کرتے تھے۔

یہ ایک عمر رسیدہ، سیدھے سادھے، نماز کے پابند، بے اولاد شخص کا ناحق قتل ہے۔

میں دفتر سے کافی دیر سے گھر پہنچا۔اورنہ چاہتے ہوئے بھی پیراڈائز چوک کی طرف چل پڑا۔

جی ہاں پیراڈائز یعنی جنت۔ ایسی جنت جہاں ایک فرشتے کو کچھ دیر پہلے درندوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

میرا خیال تھا کہ وہاں میرے علاوہ کوئی نہ ہوگا۔سوگ ہوگا، ویرانی ہوگی، ماتم ہوگا۔

لیکن افسوس ،بے حس معاشرے کی ساری مصروفیات ایک عام دن کی طرح جاری و ساری تھیں۔

دکانیں کھلی تھیں، لوگ موجود تھے، کاروبار تھا، روشنی تھی۔

البتہ ایک تبدیلی ضرور تھی۔ چوراہے کے درمیان میں پڑا محمد خان کا تازہ خون۔

جو گاڑیوں کے پہیوں سے لپٹ کرچیختا، چلاتا۔

انہیں روکنے کی ناکام سعی کرتا ۔انسانیت کی موت پر انسانوں کو جگانے کی کوشش کرتا۔

مگر بے رحم معاشرے کے بے حس پہیئے اسے کچھ دورتک رگڑتے ، جھٹکتے اور بالآخر وہ خاک ہوکر نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا۔

بریانی والا کہتا ہے کہ محمد خان گھرسے کھانے کے لئے تھیلی میں کچھ باندھ لاتا اور وہیں پول سے کمر ٹکا کر خاموشی سے کھا لیا کرتاتھا۔

اسے شاذ ونادر ہی بریانی کی عیاشی نصیب ہوتی تھی۔کبھی زبردستی اسے بریانی کی پلیٹ تھما بھی دی تو وہ مسکرا کر کہتا ۔

’’ادھار کر لو۔‘‘

پھر تنخواہ ملنے پر وہ جانے کب کب کی بریانی کے حساب مجھے یاد دلا کر قرض اتارجاتا۔

میڈیکل اسٹور والا کہتا ہے کہ ڈاکٹر اس کی بیوی کو ہفتے کی دوائی لکھتا ۔ وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ بوسیدہ سے نوٹوں کو ٹٹولتا۔

پھرہنس کر کہتا۔’’بس دو دن کی دے دو۔‘‘

محمد خان تم کیسے پولیس والے تھے۔

کسی سے رشوت ہی لے لیتے۔

تمہیں بریانی کی حقیر سی پلیٹ ادھار تو نہ کھانی پڑتی۔

کسی سے چائے پانی ہی وصو ل کر لیتے۔

کسی کا ناجائز چالان ہی کاٹ دیتے۔

تمہیں بیمار بیوی کی دوا کے لئے میڈیکل اسٹور والے کے سامنے شرمندہ تو نہ ہونا پڑتا۔

ابھی کچھ دیر پہلے ایک نامعلوم شخص کی طرف سے میسج آیا کہ ان کاکچھ اتا پتا بتایا جائے۔

وہ بضد تھا کہ ان کے ایڈریس اور فیملی کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکے۔

انتہائی اصرار پہ اس نے بتایا کہ ماموں کا اس پر ایک احسان ہے۔جسے وہ شاید اب کبھی اتار نہیں سکتا۔

اس احسان کے بدلے جب کچھ رقم بطور تحفہ انہیں دینے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ ''مجھے تنخواہ ملتی ہے۔''

ماموں ! تم نے حلال زندگی گزاری اور شہادت کی موت مرے۔

ماموں!ہم کتنے بدنصیب ہیں۔ہم نے کوئلوں کی تلاش میں تم جیسے ہیرے کھو دیے۔

ماموں! اگر ہو سکے توروز قیامت اپنی سفید وردی کی اجلی قمیض ہمیں دے دینا۔

تاکہ ہم اپنے منہ پہ ملی ہوئی بے حسی کی کالک صاف کر سکیں۔

ماموں! ہم تم سے شرمندہ ہیں۔

اگر ہو سکے تو ہمیں معاف کر دینا۔



جیو نیوز کا اس بلاگر اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔