بلاگ
31 جولائی ، 2017

روک سکتے ہو تو روک لو

روک سکتے ہو تو روک لو

نواز شریف کی نا اہلی پر تحریک انصاف کو یوم تشکر نہیں بلکہ ’’یوم ردِ تکبر‘‘ منانا چاہئے تھا۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ مریم نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد میڈیا کے کیمروں کے سامنے آئیں تو انہوں نے بڑی تمکنت کے ساتھ کہا تھا کہ روک سکتے ہو تو روک لو، نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم بنے گا اور پھر پانچویں دفعہ بھی وزیراعظم بنے گا۔

ایک جمہوری وزیراعظم کی بیٹی کا یہ انداز آمرانہ نہیں تو شاہانہ ضرور تھا اور صاف پتا چل رہا تھا کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کو وہ سب نظر نہیں آ رہا جو حالات کی دیوار پر صاف صاف لکھا ہوا تھا۔ 28؍ جولائی کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے نواز شریف کو غلط بیانی کرنے پر وزارت عظمیٰ سے نا اہل قرار دیا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف پانچ ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تو نیا بیانیہ یہ تھا کہ کھودا پاناما اور نکلا اقامہ، ہمیں کرپشن کی وجہ سے نہیں وہ تنخواہ چھپانے پر سزا دی گئی جو کبھی وصول ہی نہ کی گئی۔


اگر آپ صرف ویزا حاصل کرنے کے لئے دبئی اور برطانیہ کی حکومتوں کے ساتھ غلط بیانی کر سکتے ہیں تو اہل وطن کے ساتھ اور کیا کچھ نہ کرتے ہوں گے؟


بات تو درست ہے لیکن اگر آپ صرف ویزا حاصل کرنے کے لئے دبئی اور برطانیہ کی حکومتوں کے ساتھ غلط بیانی کر سکتے ہیں تو اہل وطن کے ساتھ اور کیا کچھ نہ کرتے ہوں گے؟ نا اہلی کے بعد بھی ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ والا رویہ برقرار ہے کیونکر تکبر کا تعلق اقتدار سے نہیں بلکہ زعم اختیار سے ہوتا ہے۔

تحریک انصاف کو ابھی مرکز میں اقتدار نہیں ملا لیکن تحریک انصاف کے کچھ زعماء ابھی سے ’’زعم اختیار‘‘ میں مبتلا نظر آتے ہیں اور ان کے لہجوں میں بھی ہمیں ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ والا رنگ صاف صاف نظر آ رہا ہے۔ تحریک انصاف کے زعماء یہ مت بھولیں کہ 28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے جس فیصلے پر انہوں نے یوم تشکر منایا یہی فیصلہ قدرت کی بے آواز لاٹھی بن کر اُن کے سر پر بھی برس سکتا ہے۔

نواز شریف کو تو صرف آئین کی دفعہ باسٹھ کی ذیلی شق ون ایف کی خلاف ورزی پر نا اہل قرار دیا گیا لیکن جہانگیر ترین پر باسٹھ ون ایف کے ساتھ ساتھ تریسٹھ این کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے بینکوں سے کروڑوں روپے کے قرضے معاف کروا رکھے ہیں۔


تحریک انصاف کے زعماء یہ مت بھولیں کہ 28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے جس فیصلے پر انہوں نے یوم تشکر منایا یہی فیصلہ قدرت کی بے آواز لاٹھی بن کر اُن کے سر پر بھی برس سکتا ہے۔


کچھ ماہرین قانون باسٹھ ون ایف کے ذریعہ وزیراعظم کی نا اہلی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی بغاوت کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا باسٹھ ون ایف کا اطلاق پہلی دفعہ ہوا؟ آئین کی اس دفعہ کا پہلے بھی اطلاق ہوتا رہا ہے لیکن اراکین پارلیمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کی طرف سے آئین میں داخل کی گئی اس دفعہ کو نکالنے کے لئے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

یاد کیجئے جب 2010ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعہ صدر کو حاصل لامحدود اختیارات پارلیمنٹ کو واپس سونپنے کا جنون طاری تھا تو باسٹھ اور تریسٹھ میں تبدیلیوں کی تجویز بھی آئی تھی۔ پیپلز پارٹی باسٹھ ون ایف کو تبدیل کرنا چاہتی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر کئی جنرل ضیاء الحق زندہ تھے اور انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ باسٹھ ون ایف کی طرف کوئی آنکھ بھی نہ اٹھا کر دیکھے۔ مسلم لیگ (ن) کو زیادہ دلچسپی تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی ختم کرانے میں تھی۔ یہ پابندی ختم کرانے کے لئے مسلم لیگ (ن) نے صوبہ سرحد کے نئے نام پر پھڈا ڈال دیا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھوانا چاہتی تھیں۔ آخر میں پیپلز پارٹی نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی ختم کرنے کی شرط مان لی اور اس کے عوض مسلم لیگ (ن) نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔

مسلم لیگ (ن) 1973ء کے آئین میں جنرل ضیاء الحق کی داخل کردہ شقوں کو بچانے میں کامیاب رہی لیکن سات سال کے بعد جنرل ضیاء باسٹھ ون ایف کی صورت میں دوبارہ نمودار ہوئے اور ایک عدالتی فیصلہ بن کر نواز شریف کے سر پر برسے۔

انہوں نے پوری دنیا کو آئین میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ باسٹھ ون ایف کو آئین سے نہ نکالنے کا ذمہ دار کون ہے؟ سپریم کورٹ یا پارلیمنٹ؟ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن)؟ باسٹھ ون ایف اتنی بری ہے تو سب جماعتیں مل کر اسے آئین سے نکال دیں لیکن فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ نواز شریف کے ایک جانثار اتحادی جناب مولانا فضل الرحمان صاحب باسٹھ ون ایف کو آئین سے نکالنے پر راضی ہو گئے تو یہ معجزہ ہو گا۔


نواز شریف کے ایک جانثار اتحادی جناب مولانا فضل الرحمان صاحب باسٹھ ون ایف کو آئین سے نکالنے پر راضی ہو گئے تو یہ معجزہ ہو گا۔


اگر آپ یہ معجزہ نہیں کر سکتے تو پھر یہ آئینی تلوار باری باری سب پر برسے گی اور جب بھی برسے گی تو نواز شریف کے اتحادی جناب اعجاز الحق آئین کی کتاب لہرا لہرا کر‘‘ زندہ ہے ضیاء الحق زندہ ہے‘‘ کا نعرہ لگانے میں حق بجانت ہوں گے۔ باسٹھ ون ایف کے ذریعہ وزیراعظم کی نا اہلی کو عدالتی بغاوت یا جوڈیشل مارشل لاء قرار دینا بددیانتی کے سوا کچھ نہیں۔

ماضی قریب میں جوڈیشل مارشل لاء کی اصطلاح جناب جاوید ہاشمی نے بھی استعمال کی تھی۔ جب سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ہاشمی صاحب نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے 2014ء میں مجھے بتایا تھا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ذریعہ ہٹایا جائے گا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک تھے جنہوں نے 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کی طرف سے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے تھے۔ ناصر الملک کی جگہ انور ظہیر جمالی چیف جسٹس بنے۔ ان کے دور میں پرویز مشرف نے دعویٰ کیا کہ جنرل راحیل شریف نے حکومت اور عدلیہ کے ساتھ مل کر مجھے پاکستان سے باہر نکلوایا۔

جمالی صاحب کے بعد جسٹس ثاقب نثار آئے تو عمران خان کے بہت سے تحفظات تھے۔ عمران خان کا خیال تھا کہ ثاقب نثار کسی زمانے میں نواز شریف کے وکیل رہے ہیں اور وہ پاناما کیس میں نواز شریف کو بچا لیں گے لیکن بعد ازاں عمران خان کی رائے بدل گئی۔ 2017ء کی سپریم کورٹ کے بارے میں یہ کہنا کہ کسی کے اشارے پر فیصلے کر رہی ہے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ وہ مہربان جن کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف کسی سازش کا شکار ہوئے ہیں، تھوڑا انتظار کر لیں۔


اگر باسٹھ ون ایف کا رخ تحریک انصاف کی طرف مڑ گیا تو پھر وہ کیا کہیں گے؟


اگر باسٹھ ون ایف کا رخ تحریک انصاف کی طرف مڑ گیا تو پھر وہ کیا کہیں گے؟ اب سازشوں کی کہانیاں چھوڑیئے اور شہباز شریف کو ان سازشوں سے بچایئے جو ان کے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی شروع ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ والا متکبرانہ انداز چھوڑ کر ’’یا اللہ یا رسول، نواز شریف بے قصور‘‘ والا عاجزانہ انداز اختیار کرنا ہو گا کیونکہ چند ہفتوں بعد نیب عدالتوں میں شریف خاندان کے خلاف ریفرنسوں کی سماعت شروع ہو جائے گی۔

ہر سماعت پر مبینہ کرپشن کی ایک نئی کہانی پر بحث ہو گی اور نئے وزیراعظم کے لئے اپنی ذات اور حکومت کو ان کرپشن کی کہانیوں سے بچا کر رکھنا بہت مشکل ہو گا۔ نئے وزیراعظم اپنے آپ کو ان کرپشن کہانیوں سے بچا سکتے ہیں تو بچا لیں ان کے خلاف اندرونی سازشیں شروع ہو چکیں یہ سازشیں روک سکتے ہیں تو روک لیں۔



حامد میر سینئر صحافی اور جیو نیوز پر پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کے میزبان ہیں۔ ان کا یہ کالم روزنامہ جنگ میں 31 جولائی 2017 کو شائع ہوا۔