بلاگ
31 جولائی ، 2017

میری جدوجہد رائیگاں گئی

جولائی کی 16 تاریخ کو عمر واوڈا نامی شخص نے ملتان کے علاقے راجپور میں ایک بارہ سالہ بچی کو اپنی حوس کا نشانہ بنایا۔ معاملہ مقامی پنچائیت کے سامنے رکھا گیا۔ 18 جولائی کو پنچائیت نے اپنا فیصلہ سنایا۔ عمر واوڈا کے  جرم کی سزا یہ طے پائی کہ اس کی سولہ سالہ بہن کے ساتھ زیادتی کی جائے گی۔ اور یوں ایک بچی سے درندگی کرنے کا خمیازہ ایک اور بچی کو بھگتنا پڑا۔

ہمارے ملک میں اس سنگین جرم کو انصاف کہتے ہیں۔

پنچائیتیں اور جرگے اکثر مردوں کے گناہوں کی سزا عورتوں کو دیتے ہیں۔ جو اپنے نفس پر قابو نہ پا سکا، اس کو کوئی سزا نہیں ملتی۔

مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ ان پنچائیتوں کی پاکستان میں کیا ضرورت ہے؟ کیا یہاں عدالتوں کا وسیع جال نہیں پھیلا ہوا؟ میں جواب دیتی ہوں ان کا وجود ہمارے قانونی نظام  کی ناکامیوں کا ثبوت ہے ۔

ایک غریب آدمی کے لئے محض ایف آئی آر درج کروانا  بھی کٹھن کام ہے۔ اگر کیس درج ہو بھی جائے تو اس کے بعد کورٹ  کچہریوں کے  چکر، جو کئی سال تک چلتے رہتے ہیں۔ جس میں یہ مالی اور ذہنی سکت نہیں کہ وہ اتنی دیر تک ڈٹا رہے، اس کے پاس پنچائیت کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا۔ خواہ وہ ایسی پنچائیت ہو جس کے نزدیک مجرم کا رشتہ دار ہونا عورت کا ہی سنگین جرم ہے۔

اصل مسلئے کی طرف کوئی نہیں آتا، اور وہ یہ ہے کہ عدالتیں زیادتی کرنے والوں کو  کڑی سزا نہیں دیتی۔ اگر 2002 میں کسی ایک پنچائیتی یا ملزم کو کڑی سزا ملتی، تو ایسے واقعات یقیناً کم ہو جاتے۔

جب میں ایسی لڑکی سے ملتی ہوں جس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو، میں اس سے کوئی سوال نہیں پوچھتی۔ میں جانتی ہوں کہ وہ اس خوفناک واقعے کو یاد نہیں کرنا چا ہتی۔ ہاں میں ان کو تسلی ضرور دیتی ہوں۔ ان کو سمجھاتی ہوں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

جب مجھے اس واقعے کے بارے میں پتہ چلا، تو میرا  بلٖڈ پریشر ہائی ہو گیا ۔ پورا دن میں یہی سوچتی رہی کہ میری 15 سالہ جدوجہد ضا ئع ہو گئی۔ آج پھر ایک لڑکی کو مختاراں جیسے مقدر سے گزرنا پڑا۔ کیا فائدہ ہوا میری محنت کا، میڈیا کے شور وغل کا؟ کب تک عدالتوں سے ان درندوں کو چھوٹ ملتی رہے گی، کب تک ہم یک طرفہ لڑائی لڑتے رہیں گے؟

شاید عدالتوں کو علم نہیں کہ زیادتی کا شکار لڑکی کو کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کا شمار نہ زندوں میں ہوتا ہے نہ ہی مردوں میں۔ وہ نہ تو اپنے خاندان کے لئے قابل قبول ہوتی ہےاور نہ ہی سماج کے لئے۔

ممجھے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے دوردراز کے گاؤں میں جانا پڑتا ہے تاکہ میں  وہاں  بسنے والی ان حوا کی بیٹیوں کو وہ شعور دے سکوں جس سے وہ اپنے حقوق سے باخبر ہو سکیں۔اس کے ساتھ ہی میں مردوں سے بھی بات چیت کرتی ہوں اور ان پر زور دیتی ہوں کہ اپنی ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق اور ان کی ناموس کا احترام کریں۔ کیونکہ ظلم کو صرف علم سے ختم  کیا جا سکتا ہے۔


مختاراں مائی سماجی کارکن ہیں اور عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔



جیو نیوز کا اس بلاگ میں بیان کیے گئے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔