بلاگ
02 اگست ، 2017

پھر کیسی گردن ناپی تمہاری

آخر کار ہم نے تمہیں پکڑ ہی لیا۔ کہا تھا نہ پکڑ لیں گے۔اور تمہیں لگا کہ ہم مذاق کر رہے ہیں، کہ یہ محض صرف ایک کھیل ہے اور اس کھیل کا اختتام مزاحیہ طریقے سے ہو جائے گا۔ بے وقوف تھے تم۔ کم عقل۔ تم نے کبھی بھی خطرے کی گھنٹی کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور یہی سمجھتے رہے کہ یہ سب ہو ہی نہیں سکتا۔

ہم نے تمہیں کہا تھا کہ چلے جاؤ یہاں سے مگر تم نہیں گئے۔ہم نے کہا تھا سدھر جاؤ اور طے کردہ حدود سے مت پھلانگو۔ تم نہیں سدھرے اور وہی حدیں پار کیں جن سے منع کیا گیا تھا۔ تمہیں چپ رہنے کیلئے کہا تھا مگر تم نے سیاسی اجتماعوں میں ـ ’’استحصال کئے جانے‘‘ کا زہر اگلا۔ ہم نے تمہیں بتایا تھا کہ یہ علاقائی مفادات سے بھرپور نازک اشیاکی دکان ہے جس میں صرف اس کے اصلی مالک کو دھڑلے سے گھومنے کی اجازت ہے۔

کسی کو بھی اس دکان میں آنے کی اجازت نہیں چاہے وہ کتنا ہی بے ضرر میں کیوں نہ ہو۔ مگر تم نے بے قابوبھینسے کی طرح دکان میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ ہم نے تمہیں جانے کیلئے کہا مگر تم شکایتوں کے انبار لگاتے رہے اور ہم نے جو بھی کہا یا کیا اس کو نظر انداز کرتے رہے۔یہاں تک کہ جب ہماری طرف سے بڑھنے والا ہاتھ مکے میں تبدیل ہوا تو تم نے پھر بھی اپنی وہی پرانی ہٹ دھرمی والی حکمت عملی جاری رکھی ۔ تم دکھاوا کرتے ہو کہ بہت بڑے اسٹریٹجسٹ ہو مگر تمہیں بالکل بھی سمجھ نہیں، کوئی مہارت نہیں۔ تمہیں تو حکمت عملی کی الف ب نہیں پتا تو کیسے تم ان کے تجربے اور مہارت کا چیلنج کر پاؤ گے جو روزانہ کی بنیاد پر اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ 

اسی لئے تمہیں سبق سکھانا ضروری تھا۔ ایسا سبق جو صدیوں یاد رکھا جائے اور تمہارے لئے اور دیگر کے لئے شرمندگی کا باعث ہو۔ دو دفعہ پہلے بھی تمہاری گردن ہمارے ہتھے چڑھی تھی مگر اس بارہم نے تہیہ کیا تھا کہ تمہاری گردن ناپنی ہی ناپنی ہے۔ اور اس کو یقینی بھی بنایا۔ 

اور اس سب کیلئے سب سے پہلا مرحلہ ایک ڈریس ریہرسل تھی جس میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عظیم خان کو ساتھ ملا کر اسلام آباد لایا گیا۔ میدان جنگ کا جائزہ لیا گیااوروسائل بروئے کار لائے گئے ۔

دوسرا مرحلہ تھا تمہیں کمزور کرنے کا۔تمہاری ساکھ کو نقصان پہنچانے کا، تمہاری گردن سے سریہ نکالنے کا۔ تمہیں با آسانی پیچھے دھکیل دیا گیا۔ تم مزید پیچھے جاتے رہے اورہار مانتے رہے۔ڈرپوک انسان۔ اور یہ سب ہونے کے بعد تم نے آخر میں تھوڑی سی ہمت دکھانے کی کوشش کی مگر پھر ہمیشہ کی طرح تمہیں پیچھے دھکیل دیا ۔

ڈان لیکس کے بعد تمہاری تمام ساکھ کو تباہ کر دیا گیا۔ اس سب کے باوجود تم اپنے منصب پر قائم رہے اور ایسے دکھاوا کیا جیسے سب ٹھیک ہو۔مگر تمہیں یہ نہیں پتا تھا کہ تمہارے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے، تمہیں گرتی ہوئی دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ 

اور آخری مرحلہ تھا تمہیں ہٹانے کا۔ بتدریج اور مناسب طریقے سے۔ عدالت تمہارے لئے فیصلہ کن میدان جنگ تھا۔ تمہیں جھوٹی امید دلائی گئی کہ تم ابھی بھی بچ سکتے ہو۔ مگر تمہیں یہ سمجھ نہیں کہ یہ امید محض ڈوبتے کیلئے تنکے سے زیادہ نہ تھی۔ تم نے اس تنکے کا سہارا لے کر سمجھا کہ کسی ٹھوس بنیاد کا سہارا لے لیا ہے۔

دو اختلافی نوٹ کے بعد تمہیں لگا کہ چھو منتر قانونی منطق کا عمل ختم ہو گیا ہے ۔ تمہاری غلط فہمی تھی کہ جو تمہیں لگا کہ انصاف کے تمام مراحل پورے کئے جائیں گے۔ بے شک احمق احمق ہی رہتا ہے۔ قانونی ایجادات کی اس ملک میں کمی نہیں۔ ایک قانونی شق کو دوسری شق کے ساتھ ملا کر قانونی کھچڑی بنا کر ایسے قانون مرتب کئے ہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا قانون دان بھی شرما جائے۔

 تو ہم نے تمہیں ایک ایسے میگا کرپشن اسکینڈل کی بحث میں پھانسے رکھا جو کچھ بہترین تحقیقاتی صحافیوں کی مددسے ہر جانب پھیلی۔ وہ صحافی جن کو تمام تحقیق پکی پکائی پلیٹ میں مل جاتی ہے۔ تمہیں لگا کہ یہ اسکینڈل لندن فلیٹس ، یا کرپشن سے حاصل کئے گئے پیسے، یا آ ف شور کمپنی یا قطری خط کے بارے میں ہو گا۔ مگر نہیں۔ یہ تو ایک بہانہ تھا تمہیں پھانسنے کا اورپھر پھانس کر گرانے کا۔

ہم نے تو تمہیں ایک بند ہوئی کمپنی سے نہ ملنے والی تنخواہ کے ذریعے معزول کرنا تھا۔ عجیب لگتا ہے نا؟ بہت عجیب؟ بالکل عجیب ہے۔ تنخواہ تو وہ ہوتی ہے جو مل چکی ہو۔ مگر اب کیا فرق پڑتا ہے۔ اب یہ سب تکنیکی باتیں کرنے کا وقت گزر گیا ہے۔ اور ویسے بھی کسی کی کیا مجال وہ یہ سب سوال ہمارے سامنے اٹھائے۔ کون اٹھائے گا سوالات، تم؟ جس کو ہم پہلے ہی فارغ کر چکے ہیں یا وہ جو یہ جانتے ہیں کہ اگر سوال اٹھایا تو ہمارا بھی یہی حال ہو گا؟تم کیا سوال اٹھاؤ گے تمہارے لئے تو چند ہزار درہم کی تنخواہ جو تم نے کبھی لی ہی نہیں کافی تھی۔ یہی حقیقت ہے اور یہی ہمارا حکم۔

اور یہ کتنی شرمندگی والی بات ہے کہ تمہارے پاس اقامہ تھا۔نہایت باعث شرم۔ نوکری لینے کا یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟۔ نوکری لینا سیکھنا ہے تو راحیل شریف سے سیکھو۔ یا اگر مدد چاہئے تو سعودی بادشاہ اور امارات کے شہزادوں کے پاس جا کر سیدھے طریقے سے مانگو جیسے پرویز مشرف نے مانگی تھی۔ یہ ہے اصل طریقہ۔ بغیر کچھ کئے ڈھیر سارا پیسہ۔ مفت کے چیک۔

اب تمہارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے۔ زوال کا۔ ہم نے تمہاری شہ رگ پر وار کیا ہے۔ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کروانا پرانا طریقہ تھا۔ نیا طریقہ قانون کا سہارا لے کر اپنا کام پورا کرنا ہے۔اس طریقے کے ثمرات سو فیصد ہیں اور یہ آزمودہ ہے۔ جیسا کہ پرانے زمانے میں برطانوی کہتے تھے کہ مصر پر حکومت کی کیا ضرورت ہے جب ہم مصر کے حکمرانوں پر حکومت کر سکتے ہیں۔

اب تم ایک ڈھلان پر ہو اور یہاں سے جتنی بھی کوشش کر لو نیچے ہی جاؤ گے۔ تمہاری تمام کوششیں تمہارے زوال کو قریب ہی لائیں گی۔ تم خاندانی دباؤ کی وجہ سے شہباز شریف کو مرکز میں لانا چاہتے ہو۔ ضرور لاؤ۔ یہ حکمت عملی سیاسی خود کشی کے مترادف ہے ۔ مرکز الٹ پلٹ ہے پنجاب میں افراتفری مچے گی ۔ شہباز شریف کیلئے اسلام آباد ایک نئی بساط ہے جس کے داؤ پیچ سے وہ بالکل نا واقف ہے۔

ویسے بھی اس کے ذاتی معاملات کی لمبی فہرست، اس کے بچے اور ان کا پولٹری کاروبار اس کو کنٹرول کرنے کیلئے کافی ہے۔ دیکھنا ہم کیسے اس کی بھی فائلیں کھولتے ہیں۔ تمہیں کنٹرول کرنا تو مشکل تھا ، اس کو تو بہت آسان ہے۔ تو لاؤ اس کو یہاں پر لا کر جو کچھ تمہاری سلطنت کا بچا ہے وہ بھی تباہ کرو۔ کیوں عمران خان کو ایک اور آسان ہدف فراہم کرو! اپنا مذاق اڑواؤ!

یہاں سے اب تم صرف ایک تماشہ بن کر رہ گئے ہو اور اگر پھر بھی کچھ نہ ہوا تو نیب کے کیسز تو ہیں ہی جن کے ذریعے تمہیں اور تمہارے بچوں کو عبرتناک مثال بنا دیں گے۔تمہارے سیاسی کیرئیر کا خاتمہ تمہارے سامنے کھڑا ہے ۔ تم اب نہیں بچ سکتے۔ کاش کہ تم اپنی حد میں رہتے ، جی حضوری کرتے اور احکامات پر سر تسلیم خم کرتے توشاید تمہارے ساتھ یہ سب نہ ہوتا۔مگر نہیں، کیا پتا پھر بھی ہو جاتا۔ یا نہیں۔ اب یہ باتیں کرنے کا فائدہ؟

یہ ہے نیا پاکستان تمہارے بغیر۔ چیمپئنز کا پاکستان۔

شیخ رشید ہے چیمپئن

عمران خان ہے چیمپئن

جے آئی ٹی ہے چیمپئن

عدالتیں ہیں چیمپئن

میڈیا (سوائے جیو) ہے چیمپئن

ہم چیمپئن

تمہارے سوا سب چیمپئن۔۔۔

تمہیں کوئی نہیں یاد کرے گا۔ تم چیمپئنز کے مابین ایک معمولی سے ہارے ہوئے کھلاڑی ہو۔

تمہیں ہرانے سے پاکستان کا فائدہ ہوا ہے۔ تمہاری ہار سے فضا میں جیت اور خوشی کی ایک لہر ہے۔ تم اٹھارویں تھے۔ دعا ہے کہ یہ تعداد آنے والے دنوں میں بڑھتی رہے کیونکہ اسی طرح ملک مضبوط ہو سکتا ہے۔ اور ہم اس قوم کے صحیح نمائندے ہونے کے ناطے اسی طرح ڈومیسٹک ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کرتے رہیں۔ آمین، ثم آمین۔

یہ آرٹیکل بدھ 2 اگست 2017 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔