بلاگ
05 اگست ، 2017

کیا یہ کلنٹن لیونسکی کیس بنے گا ؟

کیا یہ کلنٹن لیونسکی کیس بنے گا ؟

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پاکستانی سیاست میں اس قدر بیہودہ الزامات سننے کو ملیں گے۔ گو کہ ہمارے گاؤں دیہات میں اس قسم کے الزامات ان پڑھ طبقہ ایک دوسرے کی عزت اچھالنے کے لیے لگاتے رہتے ہیں لیکن میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ پڑھے لکھے اشرافیہ کہلانے والے بھی یہ حدیں عبور کر لیں گے۔

حقیقت کیا ہے ؟ یہ تو تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا لیکن اگر ایک لمحے کو مان لیا جائے کہ بد کرداری کا الزام درست ہے تو کیا اسے میڈیا میں اچھالنا ہی واحد راستہ تھا؟ کیا ہمارے قوانین جنسی طور پر حراساں کرنے والے کو سزا دینے کے قابل نہیں؟ میرا مقصد کسی کی حمایت یا کسی کی مخالفت نہیں بلکہ سیاست میں داخل ہونے والے اس خطرناک رجحان کی نشاندھی اور معاشرے پر اس کے منفی اثرات کی جانب توجہ دلانا ہے۔ ساتھ ہی میری خواہش ہے کہ فریقین کو آگاہ کر دوں کہ عدالت میں ان الزامات پر چلنے والے مقدمات میں کیسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ 

پہلے یہ دیکھیں کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف کو نا صرف وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ وہ تمام عمر کے لئے عملی سیاست سے باہر کر دیے گئے، تاہم ان پر الزامات کی نوعیت مختلف تھی ۔ ان کی نا اہلی سے ملکی سیاست میں ہلچل جاری تھی کہ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی نے عمران خان کو بدکردار کہہ کر نیا دھماکا کردیا،، یہ ایسا دھماکا تھا کہ لوگوں نے نئی حکومت کی تشکیل کو بھول کر اپنے کان عائیشہ گلا لئی اور عمران خان کی خبروں کی طرف لگا دیے۔ ہونا بھی یہی تھا کیوں کہ میں نے اپنی تین دہائیوں سے زائد صحافتی زندگی میں اس قسم کی خبروں کو جتنا بکتے دیکھا ہے اتنا کسی دوسری خبر کو نہیں۔ 

 گلا لئی نے جہاں تحریک انصاف کی قیادت پر مختلف الزامات لگائے وہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے انہیں موبائل فون پرگندے اور بیہودہ پیغامات بھیجے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان ہی  پیغامات میں عمران خان نے ان سے شادی کرنے کے اشارے بھی دیئے۔ عمران خان پہلے تو خاموش رہے لیکن جب انہوں نے خاموشی توڑی تو وہ گلا لئی کو شادی کے بارے میں بھیجے گئے پیغامات کا کوئی جواب نہ دے سکے۔

ان سوالوں پر جواب دیتے ہوئے ان کا چہرہ ساتھ نہیں دیتا تھا اور کچھ اور ہی بتا رہا تھا دوسری طرف ہم نے یہ بھی دیکھا کہ عائشہ گلی لئی کی پہلی پریس کانفرنس میں ان کا  چہرہ اور انداز زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ میرے خیال میں اصل بات دونوں ہی  بتانا نہیں چاہ رہے۔ 

عمران گلا لئی معاملہ نے ایک نہایت بیہودہ اسکینڈل کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اپنے معاشرتی اقدار کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ اسکینڈل امریکا میں ہونے والے معروف زمانہ کلنٹن لیونسکی معاملے سے کم نظر نہیں آرہا ۔ جس طرح لیونسکی نے اپنے اس روز پہنے کپڑےایک سال تک سنبھال کر رکھے  بلکل اسی طرح یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ عائشہ گلی لئی نے کس مقصد کے لئے چار سال سے عمران خان کے گندے پیغامات کا رکارڈ سنبھال کر رکھا ؟  عام زندگی میں نہ تو ہی کوئی خاتون یا مرد ایک سال تک گندے کپڑے سنھبال رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی فون پر بھیجے گئے پیغامات سالوں محفوظ رکھتا ہے۔

ہماری اطلاعات کے مطابق عمران خان اور عائشہ گلی لئی کے درمیان چار سال جو کھیل چلتا رہا ہے اس کی سچائی بتانے کو دونوں تیار نہیں ہیں،، سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان نے انہیں اس قسم کے بیہودہ پیغامات  بھیجے تھے تو عائشہ گلی لئی نے 2013 میں آنے والے پہلے پیغام پر عمران خان کے کردار کو کیوں برا نہیں کہا؟ پھر وہ چار سال تک عمران خان کے ساتھ کام کیوں کرتی رہیں؟

وہ اپنی پریس کانفرنس سے ایک دن پہلے عمران خان سے ملاقات کرتی ہیں اور پھر اگلے دن عمران خان یکدم اتنے بدکردار ہوجاتے ہیں۔ عمران خان سے ان کی ملاقات کے وقت وہاں موجود ایک ٹی وی اینکر کا کہنا ہے کہ انہوں نے عمران خان کو عائیشہ گلا لئی سے اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے دیکھا اور سنا۔ عمران خان عائیشہ سے اسمبلی میں نا جانے اور ان کے بارے میں عوامی شکایات پر سخت برہمی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی میٹنگز میں اب اس سے زیادہ ان کا دفاع نہیں کر سکتے۔

عائشہ گلی لئی کے مطابق جس طرح عمران خان نے گندے پیغامات بھیجے وہ قابل برداشت نہیں تھے اور اسے عورت کی توہین سمجھتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کے علم میں بھی ہوگا کہ جنسی طور پر حراساں کرنے والے کے خلاف کئی قوانین موجود ہیں، فون پر کسی کو بھیجا جانے والا کوئی پیغام ،وصول کرنے والے کو جنسی حراساں کرنے کا لگے ہوتو سائبر کرائمز کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دے سکتا ہے۔

اس بارے میں ضابطہ فوجداری بھی موجود ہے جس میں کسی کو حراساں یا جنسی حراساں کرنے پر مقدمہ درج ہونے کے بعد عدالت سے سزا ہوسکتی ہے۔ تیسرے یہ کہ وفاقی یا صوبائی محتسب کو بھی اس سے متعلق درخواست دے کر کارروائی کرائی جاسکتی ہے۔ لیکن عائشہ گلی لئی  نے ان میں سے کوئی راستہ اختیار نہیں کیوں نہیں کیا؟ اگر اب تک نہیں کیا تھا تو وہ اب ایسا کر سکتی ہیں لیکن وہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اور جانتی ہیں کہ جب تحقیقات ہوں گی تو اس میں عمران خان کے پیغامات پر دیئے گئے جواب بھی دکھانے پڑیں گے۔

اصل بات تو تحقیقات میں ہی پتہ چل سکتی ہیں۔ معروف اینکر اور صحافی حامد میر نے جو پیغامات دیکھے وہ بتانے والے تو نہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ اس سے عائشہ کے الزامات کو تقویت ضرور ملتی ہے لیکن عائشہ یہ نہیں بتارہی کہ چار سال وہ کیا جوابات دیتی رہی ہیں۔ میرے ذرائع اور تجربہ یہ کہتا ہے کہ عمران خان نے کوئی مقصد حاصل کرنے کے لئے عائشہ سے شادی کرنے کے پیغامات بھیجنے کے ساتھ ساتھ  عائشہ کو شادی کرنے کا کہتے رہے تھے ۔ تاہم جب عمران خان نے ان سے شادی کرنے سے انکار کیا تو عائشہ نے یکدم الزامات کی بارش کردی۔

بہرحال ہمیں تو یہ اسیکنڈل کلنٹن لیونسکی کیس بنتا نظر آرہا ہے، کلنٹن کو تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر سچ بول کر قوم سے معافی مانگ  پر بچ نکلے، لیکن پاکستان کے قانون میں ثابت ہونے پر بچ نکلنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، اگر عائشہ گلی لئی کے الزمات ثابت ہوگئے تو عمران خان کی سیاست ہمیشہ کے لئے ختم ہونے کا خطرہ موجود ہے، لیکن عائشہ بھی یہ بات یاد رکھیں کہ تحقیقات یکطرفہ نہیں ہوتی، عمران خان کے پیغامات کا وہ کیا جواب دیتی رہیں، بتانے ہی پڑیں گے۔

سینئر صحافی رئیس انصاری جیو نیوز لاہور کے بیوروچیف ہیں۔