بلاگ
05 اگست ، 2017

آمریت، جمہوریت اور پاکستان

آمریت، جمہوریت اور پاکستان

آج کل یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ادارے اہم ہوتے ہیں شخصیات کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے لیکن حقیقت اس سے الٹ ہے، شخصیات ہی اداروں کو بناتی اور بگاڑتی ہیں۔

بعض شخصیات اداروں سے بہت بلند ہوتی ہیں ادارے ان سے بنتے ہیں وہ اداروں سے نہیں،ایک جناح جب میدان میں آتا ہے تو ایک مملکت وجود میں آ جاتی ہے، ایک بھٹو جب ٹھان لیتا ہے کہ بھارت کو اس ایٹمی دھماکے کا سبق سکھانا ہے تو ایک قرضوں میں ڈوبی قوم ایٹم بموں اور میزائلوں کا ڈھیر لگا لیتی ، لیکن جب ایک شخص جب آئین کی پامالی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو جاتا ہے، شخصیات سے ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور انہی سے کمزور بھی ہو سکتے ہیں، ایک فوج کو جب صلاح الدین ایوبی ملتا ہے تو نئی فوجی تاریخ رقم ہوتی ہے ۔

میری اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شخصیات اہم ہوتی ہیں ادارے اس کے بعد آتے ہیں، ملک کے موجودہ سیاسی پس منظر میں چینی ماہرین نے سی پیک کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے،اس پر سوشل میڈیا پر کہا گیا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں، کمال لوگ ہیں ہم کہ کچھ سمجھنے اور سوچنے کو تیار ہی نہیں، ہماری فوجی ہائی کمان نے دو مرتبہ اس حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے لیکن اس کے باوجود چین کے ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے تحفظ کا اظہار کیا گیا ہے جو ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے۔

مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف کا مری سے واپسی پر شاندار استقبال ہوا ہے، سیکیورٹی کے مسائل کے باوجود وہ جی ٹی روڈ سے لاہور واپس تشریف لائیں گے، یہ ان کا دلیرانہ فیصلہ ہے ورنہ ہمارے ملک میں چند سال پہلے تک ایوان صدر میں یوم پاکستان اور یوم آزادی منایا جاتا رہا، عوامی لیڈر اور کاغذی لیڈر میں یہی فرق ہوتا ہے۔

محترمہ بے نظیر نے بھی کبھی اس طرح کے خطروں کی پرواہ نہیں کی اور کسی بنکر میں نہیں چھپیں، اللہ کریم میاں صاحب کو خیریت سے لاہور واپس لائے،سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے انہیں اس قسم کی رسک نہیں لینا چاہئیں، میں جنگ پبلشرز کی شائع کردہ کتاب جنرل جہاندار خان کی کتاب ’پاکستان قیادت کا بحران کا‘ مطالعہ کر رہا تھا، ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ایوب کے دور میں ہی پاکستان کے دولخت ہونے کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔

جنرل ایوب کے دور میں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کی بدولت اخبارات پر بدترین سنسر رہا، امروز، مشرق اور پاکستان ٹائمز پر قبضہ کر لیا گیا،قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ہمارے جوانوں نے جب پی پی ایل کی عمارت پر حملہ کیا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ کسی دشمن پر چڑھائی ہو رہی ہے، حالانکہ وہاں نہتے قلم مزدور کام کر رہے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کو کبھی کھاسی رام کہا گیا، مرنے کے بعد ان کا مختون ہونا چیک کیا گیا جبکہ وہی تھے جو 90 ہزار پاکستانیوں کو شملہ معاہدہ کے بعد واپس لائے، ایٹم بم کے معمار بنے اور پھر اس کی پاداش میں پھندے پر جھول گئے، افسوس کا مقام ہے کہ ایک شخص اس قوم کا ان کے لیے باہر نہیں آیا۔

ایک سینئر سفارت کار چوہدری اقبال اپنی کتاب’ مشتِ غبار‘ میں لکھتے ہیں کہ 1966ء میں قاہرہ میں منی سمٹ کے موقع پر چینی رہنما چو این لائی جب تشریف لائے تو ایوب سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ بھٹو کہاں ہیں؟ پاک چین دوستی کی بنیاد بھی ایک سیاست دان نے ہی رکھی کسی ادارے نے نہیں، آج بھی ایک سیاست دان ہی سی پیک کی کامیابی کا ضامن ہے، کاش ہم سمجھ سکیں۔

دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال کیا خوب فرما گئے ہیں

اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)