بلاگ
07 اگست ، 2017

اور اب پاکستان

اور اب پاکستان

60 اور 70 کی دہائی میں دنیا کی 10 سرفہرست ایئر لائنوں میں شامل پی آئی اے، اتنی تیز رفتاری کے ساتھ آسمان سے زمین پر کیوں آگری؟

یہ ہے وہ سوال جو ایوی ایشن رپورٹنگ کے دوران اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے۔

اگر میں اس کا ٹھیک ٹھیک جواب دوں تو یہی ہوگا کہ زوال کے اس فسانے میں ایسی کئی بااثر شخصیات شامل ہیں جوکسی سے پوشیدہ نہیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزارت عظمیٰ کی گدی سنبھالنے والے شاہد خاقان عباسی کا نام بھی انہی ہستیوں میں ہوتا ہے کیونکہ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پی آئی اے کے ایک مضبوط چیئرمین رہ چکے ہیں۔

 ایوی ایشن رپورٹر کی حیثیت سے اس دور میں میری شاہد خاقان عباسی سے پی آئی اے ہیڈ آفس میں اکثر ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت دوتہائی اکثریت والی نواز حکومت میں شاہد خاقان عباسی کو بحثیت چیئرمین پی آئی اے میں بے پناہ اختیارات حاصل تھے اور انہوں نے جو چاہا ، پی آئی اے میں وہی ہوا۔

وزیرمملکت کی حیثیت سے وہ پی آئی اے کے بربنائے عہدہ (ایکس آفیشو)چیئرمین تھے ۔لیکن میرا انہیں ایکس ’آفیشو چیرمین ‘لکھنا ہمیشہ ناگوار گزرتا تھا۔ پی آئی اے کے پی آر او کہتے تھے کہ انہیں ایکس آفیشو نہ لکھیں صرف چیئرمین پی آئی اے لکھا کریں۔

میری اکثر خبروں میں ان کے اقدامات پر تنقید کا پہلو نمایاں ہوتا۔شاہد خاقان عباسی ان خبروں کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے اور اپنا موقف دینے یا ملاقات سے کبھی انکار نہ کرتے ۔تنقیدی خبروں کے باوجود ہمارے تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے۔

لیکن ایک دن حسب معمول میں نے ملاقات کیلئے اپنا تعارفی کارڈ ان کی سیکریٹری کو دیا ، تو فورا ہی ملاقات کیلئے بلالیا گیا ۔ شاہد خاقان عباسی دفتر میں اکیلے تھے ،میرے داخل ہوتے ہی برس پڑے ۔کہنے لگے، تم جومرضی چاہو لکھو ، جو مرضی چاہو چھاپو۔ ۔۔لیکن یاد رکھو میں شیخ رشید (اس وقت کے وزیر اطلاعات) نہیں ہوں کہ تمھارے پاؤں پڑ جاؤں ۔ ۔۔میں شیخ رشید کی طرح تمھاری خوشامد نہیں کروں گا۔۔میں شیخ رشید نہیں بنوں گا وغیرہ وغیرہ۔

 شاہد خاقان عباسی کا یہ روپ میرے لئے حیران کن تھا ۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے بھی جوابا کہا کہ خبریں دینے میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے ۔۔۔ پی آئی اے قومی ادارہ ہے ،کسی کی جاگیر نہیں ۔۔ جو خبر ہو گی وہ ضرور دوں گا ۔ اس کے بعد کمرے میں کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی پھر شاہد خاقان عباسی نارمل ہوگئے ، اور میری خبر پر وضاحت دینے لگے۔

بعد میں چیر مین پی آئی اے کے معاون خصوصی اور ایوی ایشن رپورٹنگ میں میرے استاد ناصر علی صاحب نے صورتحال کو سنبھال لیا۔

بحثیت ایوی ایشن رپورٹر دو دہائیوں کے اپنے تجربے کی بنیاد پر مجھے لگتا ہے کہ وزیر مملکت کے اختیارات کے حامل شاہد خاقان عباسی نے اس دور میں جو اقدامات کئے ان کے اثرات آج بھی پی آئی اے میں محسوس کئے جاتے ہیں۔

اگر ان کے دور میں پی آئی اے میں کیے جانے والے اقدامات پر نظر ڈالیں تو اس قومی ادارے کے زوال میں وہ بھی حصہ دار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے دور میں نئے طیارے لینے کی بجائے ہانگ کانگ کی کیتھی پیسیفک ایرلائنز سے 5 ایسے بوئنگ 747 ۔300 طیارے لئے گئےجو کیتھی پیسیفک نے اسکرپ کرنے کیلئے گراونڈ کردیئے تھے۔ میرے نزدیک یہ طیارے مہنگی ترین لیز پر لئے گئے اور 6سالہ لیز کی تکمیل پر معاہدے کے تحت یہ ’کچرا طیارے ‘پی آئی اے کو خریدنا بھی پڑ گئے۔ ان دنوں کیتھی پیسیفک ائیرلائن مالی بحران سے دوچار تھی لیکن پی آئی اے کے ساتھ اس ڈیل کے نتیجہ میں کیتھی پیسیفک تو مالی بحران سے نکل گئی لیکن پی آئی اے دھنس گئی۔

ان پرانے طیاروں پر بہت زیادہ ایندھن استعمال کرنے والے رولز رائس انجن لگے تھے ، یہ انجن صرف سعودی ایرلائن جیسی چند ایک ایرلائنز کے طیاروں پر ہی لگے تھے۔ اس ڈیل سے پی آئی اے کے ایندھن اور فاصل پرزہ جات کے خرچےمزید بڑھے۔

انہی کے دور میں پی آئی اے کا ریزرویشن ہوسٹنگ سسٹم انتہائی مہنگی شرح پر ایک امریکی کمپنی سیبر کے حوالے کیا گیا اور آج تک پی آئی اے سیبر کمپنی کی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکی ہے۔

شاہدخاقان عباسی کے دور میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ اسکیم کے تحت پی آئی اے کی سینئر انتظامیہ سمیت سینکڑوں تجربہ کار ملازمین کو فارغ کردیا گیا۔ اس کے بعد ان کے دور میں 55 سال کی عمر کے بھی تمام افسران اور ملازمین کو ’رضاکارانہ‘ اسکیم جو کہ دراصل میں لازمی گولڈن ہینڈ شیک اسکیم تھی ، دے کر گھر بھیج دیا۔ اس اقدام سے ائیرلائن کی سینئر اور مڈل مینجمنٹ گھر چلی گئی اور پی آئی اے سینئر قیادت کے ایسے بحران کا شکار ہوگئی جو آج تک موجود ہے۔ یعنی آج پی آئی اے کے چیئرمین سے لے کر چیف کمرشل آفیسرتک چاروں کلیدی عہدوں پر براجمان افراد میں کسی ایک کا بھی ائیرلائن بزنس سے کوئی تعلق نہیں۔

شاہد خاقان عباسی کے دورمیں اٹھائے گئے ان اقدام کی وجہ سے جونیئر ملازمین وقت سے پہلے بڑے ہوگئے۔ وقت سے پہلے بڑا ہونے اور پیشہ ورانہ تربیت سے محروم رہ جانے والوں نے قومی ائیرلائن پی آئی اے کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

قبل از وقت ریٹائرمنٹ اور گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کی بھاری بھرکم ادائیگیں کرنے اور فارغ کئے گئے ملازمین کو 60 سال کی عمرتک گھر بیٹھے تنخواہیں اور دیگر مراعات دینے کیلئے سٹی بینک اور دیگر غیر ملکی بینکوں سے انتہائی بھاری شرح سود پر قرضے لئے گئے۔

 غیرملکی بینکوں نے قرض کی واپسی یقینی بنانے کیلئے پی آئی اے کے لندن اور جدہ جیسے منافع بخش روٹس رہن رکھ لئے ، ان روٹس کی آمدنی پہلے غیرملکی بنکوں کے اکاؤنٹ میں جاتی ،بینک اپنی قسط اور سود کاٹ کر بچی رقم پی آئی اے کو دیتے۔ ایک کے بعد ایک لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لیے گئے۔

اور یوں پی آئی اے آج اربوں روپے کے قرضے تلے دبی ہے۔

1999 میں جب بھاری منڈیٹ والی نواز حکومت نے جنرل مشرف کے طیارے کو کراچی ایرپورٹ پر اترنے سے روکا تو اس وقت شاہد خاقان عباسی کراچی ائیر پورٹ پر ہی پی آئی اے فلائٹ آپریشن میں بیٹھے اوپر کی ہدایات پر عمل کررہے تھے، جنرل مشرف کا طیارہ کراچی ائیرپورٹ پر اترا تو شاہد خاقان عباسی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

وہ تقریبا ڈیڑھ سال بعد رہا ہوئے تو مشرف دور میں ہی اپنی ائیرلائن ’ائیربلو ‘قائم کی جو پہلے دن سے ہی منافع بخش ہے۔

موجودہ دور میں بھی وزیر پیٹرولیم کی حیثیت سے ان پر قطر سے ایل این جی کی خریداری پر بھی مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

میں ہرگز پی آئی کے زوال کا واحد ذمہ دار شاہد خاقان عباسی کو نہیں ٹھہرا رہا مگر ان کے دورمیں کیے گئے اقدامات سے پی آئی اے جیسے قومی ادارے کو شدید نقصان پہنچا۔

مسلم لیگ ن نے 1997 میں پی آئی اے ان کے حوالے کیا تھا اور اس دفعہ پاکستان۔ ہمیں امید ہے اب جب وہ وزیراعظم بنے ہیں تو وہ پی آئی اے والا اپنا تجربہ نہیں دھرائیں گے۔

طارق ابوالحسن جیو نیوز کے سینئر رپورٹر ہیں اور ایوی ایشن رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔


جیو نیوز کا اس بلاگ میں بیان کیے گئے خیالات و حقائق سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔