وطن کا نام روشن کرنے والے 20 غیر مسلم پاکستانی

پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔ ایک اسلامی ریاست ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے قومی جھنڈے میں بھی اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے

پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔ ایک اسلامی ریاست ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے قومی جھنڈے میں بھی اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے جھنڈے میں سبز رنگ یہاں کی مسلم اکثریت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ اس میں موجود سفید رنگ پاکستان میں رہنی والی اقلیتوں کا ظاہر کرتا ہے۔

گزشتہ 70 سالوں کے دوران پاکستان میں اقلیتوں نے ہر شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ پھر چاہیں وہ مسلح افواج ہوں، عدلیہ، کھیل، تعلیم و تفریح ہر شعبے میں ہی اقلیتوں نے اپنا لوہا منوایا۔ مندرجہ ذیل چند مثالیں ہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

اردشیر کاوسجی

کاوسجی 13 اپریل 1926 کو کراچی کے ایک معروف پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ معروف فلسفی اور تاجر کاوسجی تقریباً دو دہائیوں تک معروف اخبار ’ڈان‘ کے لیے کالم لکھتے رہے۔ ان کے کالمز نے معاشرے میں موجود کرپشن کی کئی سالوں تک نشاندہی کی۔ ان کا انتقال 24 نومبر 2012 کو 86 سال کی عمر میں ہوا۔ 3 نومبر 2013 کو کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے اپنے ایک شعبے کا نام ’اردشیر کاوسجی سینٹر فار رائٹنگ‘ رکھ دیا۔

بائیرام آواری

معروف پاکستانی تاجر بائیرام دنشاجی آواری آواری گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ آواری گروپ پاکستان کا پہلا گروپ ہے جس نے بین الاقوامی ہوٹل مینجمنٹ کانٹریکٹ حاصل کیا جو دبئی اور ٹورنٹو میں آپریشنل ہے۔ وہ ایک ایتھلیٹ بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کیلئے ایشین گیمز میں دو مرتبہ گولڈ میڈل حاصل کیا۔ یہ میڈل انہوں نے 1978 بنکاک اور 1982 نئی دہلی میں حاصل کیے۔

جمشید مارکر

جمشید کیکوباد اردشیر مارکر ایک نامور پاکستان سفیر اور کرکٹر کمنٹیٹر ہیں۔ ان کا نام گینس بک آف ریکارڈز میں بھی موجود ہے۔ انہیں دنیا میں سب سے زیادہ ممالک میں سفیر رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہیں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ وہ انگریزی، اردو، گجراتی، فرنچ، جرمن اور روسی زبانی باآسانی بول سکتے ہیں۔

وہ امریکا کے علاوہ ایک درجن سے زائد ممالک میں تین دہائیوں تک پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل میں ریڈیو پر کرکٹ کمنٹیٹر بھی رہ چکے ہیں۔

چیف جسٹس اے آر کورنیلئس

چیف جسٹس الون ’بابی‘ رابرٹ کورنیلئس پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس تھے جنہوں نے 1960 سے 1968 میں پاکستان کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ وہ پاکستان کے پہلے عیسائی چیف جسٹس تھے۔ انہیں پاکستان میں کرکٹ کو فروغ دینے کے بانیوں میں شمار کی جاتا ہے۔ وہ 60 کی دہائی میں ایڈ ہاک کمیٹی کے چیئرمین تھے، بی سی سی پی (جو اب پی سی بی ہے) کے نائب صدر اور ورکنگ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ وہ لاہور میں 22 دسمبر 1991 کو انتقال کرگئے۔

جسٹس (ر) رانا بھگوان داس

رانا بگھوان داس پاکستان کے پہلے ہندو اور دوسرے غیر مسلم جج تھے جو عدالت عظمیٰ کے بلند ترین عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے نگراں چیف جسٹس کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ وہ اس منصب پر 2007 کے عدالتی بحران کے دوران فائر رہے۔ ان کا انتقال 23 فروری 2015 کو کراچی میں ہوا۔

ایئر کوموڈور ڈبلیو جے ایم ٹورووکس

ایئر کوموڈور ولیڈسلو جوزف مارین ڑورووکس کو پاکستان فضائیہ اور پاکستان اسپیس پروگرام کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 1908 میں سائبیریا میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے اپنے ہائی ٹیک راکٹ اور میزائل ٹیکنالوجی بنانے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ ان وہ 45 پولس افسران میں شامل تھے جنہوں نے 50 کی دہائی میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ اپنے کانٹریکٹ کے اختتام کے باوجود انہوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاک فضائیہ اور بعد میں اسپارکو میں خدمات جاری رکھیں۔ انہیں ستارہ پاکستان، ستارہ خدمت، تمغہ پاکستان، ستارہ قائداعظم اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ 1980 میں کراچی میں ان کا انتقال ہوگیا۔

گروپ کیپٹن سیزل چوہدری

سیزل چوہدری پاکستان کے وار ہیرو اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ وہ 24 اگست 1941 کو دلوال گاؤں میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1958 میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔

وہ اس ٹیم کا حصہ ہیں جس نے 1965 کی جنگ میں امرتسر ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنے میں حصہ لیا۔ انہیں ستارہ جرت اور تمغہ جرت سے نوازا گیا۔ وہ اپریل 2012 میں لاہور میں انتقال کرگئے۔

ونگ کمانڈر مرون مڈل کوٹ

ونگ کمانڈر مرون لیسلی مڈل کوٹ پاک فضائیہ کے ایک فائٹر پاٹلٹ تھے جنہوں نے اپنے ملک کے لیے جان دے دی۔ جب ہندوستانی فضائیہ نے 1965 کی جنگ میں کراچی پر حملہ کیا تو مرون کو کراچی کے دفاع کے لیے ایک ایف 86 سیبر طیارے کے ساتھ روانہ کیا گیا۔ انہوں نے دشمن کے دو طیارے تباہ کردیے جس کی وجہ سے انہیں ’ڈیفنڈر آف کراچی‘ کے ٹائٹل سے نوازا گیا۔

1972 میں جنگ کے موقع پر وہ اردن میں ہی موجود تھے۔ انہیں ایک خطرناک مشن پر بھی بھیجا گیا۔ اردن کے بادشاہ نے ان کے انتقال کے موقع پر ان کی بیوہ سے درخواست کی کہ کیوں کہ انہیں پاکستانی پرچم کے ساتھ سپرد خاک کیا جارہا ہے تو ان کے سر کے نیچے اردن کا جھنڈا بھی رکھ دیا جائے۔ مڈل کوٹ نے اسرائیل کے خلاف چھ روزہ جنگ میں حصہ لیا تھا۔

اے نیئر

آرتھر نیئر جنہیں اے نیئر کے نام سے جانا جاتا ہے، 70 سے 90 کی دہائی کے درمیان پاکستان کے نامور گلوکار تھے۔ انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز پاکستان ٹیلی ویژن سے کیا۔ بعدازاں انہوں نے فلموں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے وحید مراد، محمد علی، ندیم، شاہد، شان، فیصل ایاز اور ہمایوں سعید جیسے ناموں کے لیے گانے گائے۔ انہیں احمد رشدی کا متبادل قرار دیا جاتا جبکہ ان کی آواز کشور کمار سے کافی مماثلت رکھتی تھی۔ انہیں 1979، 1985، 1988، 1989 اور 1991 میں نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

ایرین پروین

ایرین پروین نے اپنے کریئر کا آغاز 1958 میں کیا اور مالا کے ساتھ 60 کی دہائی میں انہوں نے مقبولیت پائی۔ انہوں نے احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ کچھ مشہور گانے بھی گائے جن میں فلم آگ کا ’کچھ کچھ مجھ سے ملتا جلتا بچوں ایک تھا راجا‘ فلم احسان کا ’دو انکھیاں دو سکھیاں‘ اور فلم تم میرے ہو کا ’ندیا بہتی جائے‘ شامل ہیں۔ ان کا آخری مشہور گانا 1972 کی فلم انگارے کا ’اک پل تو رکو‘ تھا۔

ایس بی جان

سنی بینجیمن جان 1934 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 50 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور کئی نامور اردو غزلیں گائیں۔ 1959 کی فلم سویرہ میں ان کی جانب سے گایا جانے والا گانا ’تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے‘ بہت مقبول ہوا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن متعارف ہونے کے بعد انہوں نے کرسمس ایو پر پی ٹی وی کے لیے گاسپل میوزک بھی گایا۔ 14 اگست 2010 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے جان کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔

رابن گھوش اور شبنم

جھرنا باسک یا شبنم دو دہائیوں تک پاکستان کی سب سے مقبول اداکارہ رہیں۔ پاکستانی ہدایت کار بشمول پرویز ملک زیادہ تر اپنی نئی فلموں کے لیے انہیں ہی کاسٹ کرتے۔ انہوں نے ’جہاں تم وہاں ہم‘، انمول، انتخاب، پہچان، تلاش، کامیابی، سچائی، قربانی اور پاکیزہ جیسی فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

دسمبر 1965 میں انہوں نے میوزک کمپوزر رابن گھوش سے شادی کرلی۔ گھوش کا شمار پاکستان کے نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے 1960 سے 1980 کے درمیان تلاش، چکوری، احساس، چاہت، دو ساتھی، شرافت، آئینہ، امبر، بندش، نہیں ابھی نہیں اور دوریاں جیسے مقبول ترین گانے گائے۔ گھوش پچاس سالہ شادی کے بعد رواں سال ڈھاکا میں انتقال کرگئے۔

بنجامن سسٹرز

80 کی دہائی میں تین بہنوں نریسہ، بینہ اور شبانہ کا ایک گروپ ’بینجامن سسٹرز‘ منظر عام پر آیا۔ انہوں نے 60 اور 70 کی دہائی میں پی ٹی وی کے کئی پروگراموں میں حصہ لیا تاہم 1983 کے ہٹ شو ’سلور جوبلی‘ سے انہوں نے مقبولیت پائی۔ انہوں نے کئی ملی نغمے بھی گائے جن میں خیال رکھنا، اے نور قائد اور ہم زندہ قوم ہیں شامل ہیں۔

ستیش آنند

ستیش آنند پاکستان کے نامور فلم میکر، تاجر اور ڈسٹری بیوٹر ہیں۔ ان کا دفتر ڈسٹری بیوشن پکچرز کراچی اور لاہور سے آپریٹ کرتا ہے۔ ستیش جے سی آنند کے بیٹے ہیں ہیں جو خود پاکستان کے نامور فلم پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر تھے۔

دیبو

دیبو بھتہ چاریا مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک فلم میوزیشن تھے۔ وہ ایک ہندو تھے جنہوں نے 50 کی دہائی پاکستان نقل مکانی کرلی۔ آگے آنے والے 15 سالوں میں انہوں نے بنجارہ، بدنام، سمندر اور بازی جیسی فلموں کے لیے میوزک دیا۔

ویلس متھیاس

اپنے دوستوں میں ’جان‘ کے نام سے مشہور ویلس متھیاس پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرنے والے پہلے عیسائی تھے۔ کراچی میں پیدا ہونے والے ویلس نے پاکستان کے لیے 1955 سے 1962 کے درمیان 21 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ وہ ایک قابل اعتماد مڈل آرڈر بلے باز تھے تاہم انہیں اپنی فیلڈنگ کے لیے یادرکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنے کریئر کے دوران 22 کیچز بھی پکڑے۔ یکم ستمبر 1994 کو 59 کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔

دنیش کنیریا

دنیش کنیریا ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لیگ اسپنر ہیں جنہوں نے کسی بھی اسپن باؤلر سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ انہوں نے 61 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 261 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے ویسٹ انڈیز، انگلینڈ اور بھارت کے خلاف کچھ سیریزوں میں پاکستان کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔

جمشید مہتا

جمشید نصرونجی مہتا کراچی کے پہلے میئر تھے جو 1886 میں کراچی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1918 میں کے ایم سی کے کونسلر منتخب ہوئے اور جلد ہی کورپوریشن کے صدر بن گئے۔

انہوں نے اس عہدے پر 12 سال تک خدمات سرانجام دیں اور شہر کے پہلے میئر بنے۔ کراچی کو ایک بڑے شہر میں تبدیل کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ ان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہئوے پاکستان پوسٹ نے 1988 میں ان نام کا اسٹیمٹ جاری کیا۔

گرٹروڈ لیمنز

پاکستان کی مدر ٹریزا کہلائے جانے والی سسٹر گرٹروڈ ایک ڈچ نن اور دارالسکون کی کی بانی تھیں۔ دارالسکون کراچی میں واقع ہے جہاں دماغی امراض کا شکار افراد کو پناہ دی جاتی ہے۔ وہ پاکستان میں نومبر 1939 میں آئیں۔ ان کے ساتھ ان کے بھائی بھی تھے جو خود ایک پادری تھے۔ لیمنز نے 1969 میں دارالسکون کی بنیاد رکھی۔

ان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں صدر پاکستان نے 1989 میں ستارہ قائداعظم سع نوازا۔ اب کا اکتوبر سن 2000 میں انتقال ہوگیا اور انہیں یکم نومبر کو دفنادیا گیا۔ 61 سال قبل یکم نومبر کو ہی وہ پاکستان تشریف لائی تھیں۔