تقسیم ہند: کچھ زخم جو آج بھی نہ بھر پائے


ڈاکٹر طاہرہ رضوی کراچی کے علاقے ڈیفنس میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا شمار ان لاکھوں افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے اگست 1947 میں بھارت سے پاکستان ہجرت کی، اور دیگر افراد کی ہی طرح ان کے سینے میں بھی تقسیم ہند کی کچھ دردناک کہانیاں دفن ہیں۔

’ہم لوگ کانپور میں رہتے تھے۔ ویسے تو ہم مسلمانوں کے محلے میں رہتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی تقسیم کے بعد ہندوؤں کے جتھے حملہ کردیتے تھے۔ میرے خاندان کے کچھ لوگ پاکستان آ رہے تھے تو میرے والد صاحب نے ہم لوگوں کو بھی ان کے ساتھ پاکستان روانہ کردیا۔‘

ڈاکٹر رضوی بتاتی ہیں کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ملک میں نسلی امتیاز نام کی کوئی چیز نہ تھی، سب کے سب صرف پاکستانی تھے۔ وہ ہندوستانی علاقے کانپور سے تعلق رکھتی تھیں۔

’جب ہم کراچی پہنچے ہیں تو اس وقت تک نا پنجابی نا پٹھان نا بلوچ نا مہاجر کوئی تفریق نہیں تھی۔‘

اندازوں کے مطابق تقسیم ہند کے باعث سرحد کی دونوں جانب لاکھوں افراد نے اپنی جانیں گنوائیں جبکہ کروڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔

’میں نے اپنی زندگی لالو کھیت کی ایک جھونپڑی سے شروع کی‘


ڈاکٹر رضوی ہی کی طرح سید محبوب عابد تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ تاہم ان کا پاکستان آنے کا مقصد بہتر زندگی کی تلاش تھا۔

’ میں نے میٹرک لکھنو سجل ہائی اسکول سے کیا۔ لکھنو میں ہندوؤں کو بھی نوکریاں نہیں ملتی تھیں تو لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان جائیں گے۔‘

ان کی کہانی بھی کئی ایسے پاکستانیوں کی جیسی ہے جنہوں نے ہندوستان چھوڑ کر نئے ملک میں زندگی کی نئی شروعات کی بلکہ زندگی کی دوڑ میں اپنی انتھک محنت کی وجہ سے ترقی بھی حاصل۔

’میں نے اپنی زندگی لالو کھیت کی ایک جھونپڑی سے شروع کی اور آج اللہ کے فضل سے اپنی محنت سے اور لوگوں کے تعاون سے، ان کی مدد سے میں ڈیفینس میں رہ رہا ہوں۔‘

مزید خبریں :