بلاگ
Time 15 اگست ، 2017

ماؤ، میاں صاب، انقلاب اور کباب

دنیا میں انقلابی صرف دو ہی گزرے ہیں۔ ایک چین کے ماؤزے تنگ دوسرا ہمارے میاں صاحب بلکہ میاں صاب۔ سچ پوچھیں تو ماؤ بھی ایویں ہی ہے، اصل نقلابی تو اپنے یہ پاناما اور پارک لین فیم میاں صاب ہیں جو بڑھاپے میں اچانک راتوں رات نظریاتی بھی ہوگئے اورانقلابی بھی تو اللہ میاں صاب کو یہ کروٹ کروٹ، قریہ قریہ بلٹ پروف اور ائیرکنڈیشنڈ انقلاب مبارک کرے جس کے پارٹ ون میں ’’ویلیں‘‘ بھی تقسیم ہوتی رہیں کہ واقعی ویلوں والا انقلاب میاں صاحب جیسا انقلابی ہی بپا کرسکتا تھا۔

36یا شاید39 کھانوں کے ساتھ ڈنر کرنے والے اس تاریخی کنٹینر انقلاب کے ساتھ ایمبولینس، موبائل اسپتال اور موبائل کینٹین بھی موجود تھی کیونکہ 7سٹار انقلاب اس کرّوفر اور طمطراق سے آیا کرتا ہے اس انقلاب کے ہر اول دستوں میں ایم این ایز، ایم پی ایز، لوکل باڈیز کے عہدیدار، سرکاری اہلکار وغیرہ کے ساتھ ساتھ ناچے بھی انقلابیوں کا دل بہلانے کیلئے موجود تھے۔

پنجاب ہاؤس اسلام آباد تا جاتی امرا لاہور تک ’’ٹیڈی مارچ‘‘ کے برعکس ماؤ اور اس کے سرفروش ساتھیوں کا یہ مارچ 9656کلومیٹر پر محیط تھا جو ایک سال تین دن تک جاری رہا۔

اب چلتے ہیں برادر ہمسایہ ملک چین کی طرف جس کے بانی ماؤ کے غریبانہ عاجزانہ قسم کے انقلاب کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں حالانکہ اس انقلاب پر مشہور زمانہ ’’والیوم 10‘‘ جیسے سینکڑوں والیومز لکھے جاسکتے ہیں بلکہ لکھے جا چکے ہیں لیکن کالم لمبا ہو جائے تو ’’مضمون‘‘ بن جاتا ہے۔ماؤ کا انقلاب مارچ 1934ء میں شروع ہوا۔پنجاب ہاؤس اسلام آباد تا جاتی امرا لاہور تک ’’ٹیڈی مارچ‘‘ کے برعکس ماؤ اور اس کے سرفروش ساتھیوں کا یہ مارچ 9656کلومیٹر پر محیط تھا جو ایک سال تین دن تک جاری رہا۔

ماؤ اوراس کے انقلابی اس جاں لیوا سفر کے دوران پکی سڑکوں، ٹول پلازوں، عشرت گاہوں سے گزرنے کی بجائے چین کے گیارہ صوبوں سے گزرے، ان نہتے پیدل بھوکے ننگے لوگوں نے اس ’’ریلی‘‘ کے دوران 24دریا عبور کئے، 18ایسے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں سے بھی گزرے جن میں برف پوش پہاڑ بھی شامل تھے اور ان میں سےایک پہاڑ کی اونچائی 16000 فٹ تھی۔ اسلام آباد تا لاہور جی ٹی روڈ کے 286کلومیٹرز کے برعکس اس 9656کلومیٹر لمبے سفر میں17تا 26میل روزانہ پیدل بھوک پیاس ہی انقلابیوں کا رخت سفر، زاد راہ تھا یا وہ لازوال بے مثال جذبہ جو صرف ماؤ جیسی محیر العقول لیڈر شپ ہی پیدا کرسکتی ہے۔

ملک کا حلیہ اور لفظوں کے معنی بدل دیئے ان لوگوں نے جو پکنک کو انقلاب، موروثیت کو جمہوریت اور خیانت کو دیانت قرار دے کر پوچھتے ہیں، ’’مجھے کیوں نکالا گیا؟‘‘

انقلاب کی منزل کیلئے نکلے 90000جاں باز جن میں سے صرف 30ہزار ہی منزل کو مبارک ٹھہرے۔ باقی 60ہزار بے رحم رستوں میں جنگی جھڑپوں، بدترین سفری صعوبتوں، موسم کی سختیوں، شدتوں، بھوک اور پیاس پر قربان ہوگئے۔ راہ انقلاب کے یہ مسافر اکثر دنوں سوکھی گھاس کھاتے رہے کہ راستوں میں ہری گھاس تک نصیب نہ تھی جبکہ ہمارے ایفی ڈرین فروش اور پراپرٹی ڈیلر انقلابی بغیر کسی جانی و مالی نقصان کے ایک ٹین ایجر بچہ اور ایک ادھیڑ عمرآدمی مار کر بخیر و خوبی گھروگھری پدھارے۔

میں نے جانی کے ساتھ ساتھ مالی نقصان نہ ہونے کا خصوصی حوالے اس لئے دیا کہ یہ سارا انقلاب سو فیصد سپانسرڈ تھا۔ خوش رہو دوسروں کے خرچے پر۔ یہاں تک کہ پولیس والے بھی سادہ کپڑوں میں قافلہ انقلاب میں کھلے چھوڑ دیئے گئے تھے تاکہ ثواب دارین و تائید شریفین حاصل کرسکیں۔کہاں وہ مائو کا بھوکا پیاسا سوکھی گھاس کھانے والا انقلاب کہاں میاں صاحب کا یہ چٹورا، چسکورا اور بسیار خور، لذیز انقلاب .... کیسے لوگ ہیں جنہوں نے انقلاب کو بھی سیخ کباب، شامی کباب، چلو کباب، گولا کباب اور چپلی کباب سمجھ رکھا ہے۔

ملک کا حلیہ اور لفظوں کے معنی بدل دیئے ان لوگوں نے جو پکنک کو انقلاب، موروثیت کو جمہوریت اور خیانت کو دیانت قرار دے کر پوچھتے ہیں، ’’مجھے کیوں نکالا گیا؟‘‘ سوشل میڈیا سے لیکر پمفلٹس تک کی صورت میں جگہ جگہ سے دھڑا دھڑ جواب آرہے ہیں کہ کیوں نکالا گیا۔ یہ خود کو ہی قوم، ترقی، جمہوریت اور مینڈیٹ سمجھتے ہیں۔ خود کو ہی پاکستان اور اس کا استحکام سمجھتے ہیں ورنہ کبھی مینڈیٹ کی توہین کا مکر نہ کرتے۔

حکومت تمہاری جوں کی توںوزیراعظم تمہاراکیبنٹ اپنے پسندیدہ گینگ پر مشتمل بلکہ آگے پیچھے محو رقص تو مینڈیٹ کی توہین کہاں سے آگئی؟ ہاں البتہ اگر آپ ہی پارٹی، آپ ہی منشور، آپ ہی سمبل، آپ ہی سب کچھ ہیں، آپ کی ذات شریف ہی جمہوریت ہے اور مینڈیٹ بھی ....باقی سب نظر بٹو اور کٹلری کا سامان تو شاید اس تیزی سے بدلتے پاکستان میں اس کی مزید گنجائش ہی نہیں رہ گئی۔

انقلاب تو آئے گا ان شاء اللہ لیکن کسی اور قسم کا اور یہ مشتمل ہوگا ریفرنسوں، پیشیوں، گرفتاریوں، جیلوں اور بیلوں پر .....اب ضابطہ فوجداری کی عملداری ہوگی اور اسی راجکماری کی ناز برداری کرنا ہوگی۔ رہ گئے چوری کھانے اور غرانے والے مجنوں تو یہ صحرا پر چھائے بادلوں کی طرح چھٹتے جائیں گے۔ سینئر، سوبر، سمجھدار قیادت تو پہلے ہی خاموشی سے اعلان لاتعلقی کر چکی، ان کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

عزت مآب ججوں کو ڈکٹیٹروں کے ساتھ بریکٹ کرنے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو کھیل تماشہ قرار دینے والوں کی دراز رسی تھام اور روک لی گئی ہے .... روک سکو تو روک لو کہ یہ رسی ریورس میں لپیٹی جارہی ہے۔ ممکن ہو تو انقلاب اور سیخ کباب، شامی کباب، چلو کباب، گولا کباب اور چپلی کباب میں فرق سمجھنے کی کوشش کرو۔

یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں 15 اگست کو شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔