جیو پر 100واں بلاگ

لکھنے پڑھنے کا شوق تو ہمیں پچپن سے ہی ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ وراثت میں ملا ہے تو غلط نہ ہو گا، دادا جان جناب حکیم محمد یعقوب منیر عظیمی پنجابی کے صاحب دیوان شاعر تھے جبکہ والد گرامی جناب سعید بدر ملک کے سینئر صحافیوں اور ادیبوں میں سے ایک ہیں اور صدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں۔

ہمارا اسکول کا زمانہ وہ دور ہے جب جنرل محمد ضیاالحق کا مارشل لاء لگا تھا، یاد آیا آج تو 17 اگست ہے، ان سمیت شہدائے بہاولپور کی برسی بھی ہے، میڈیا نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے طویل دور حکومت کے حوالے سے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

ضیاء دور میں میڈیا پر بھی حکومت کا سخت کنٹرول تھا، اس کے اثرات گھروں پر بھی تھے، گھروں میں بھی ہر وقت گویا کرفیو ہی لگا رہتا تھا، آج کل کی پود کو سمجھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ کس طرح شام کو ٹی وی نشریات کا آغاز ہوتا تھا اور 11بجے سب بستروں میں ہوتے، رضائی کے اندر گھس کر کس مشکل سے اشتیاق احمد صاحب کے ناول پڑھا کرتے تھے۔

اسی دور میں ایک مرتبہ لکھنے کی کوشش کی تو تحریر والد گرامی کے ہاتھ لگ گئی تو جناب  بس پھر کیا تھا پہلے تو تحریر میں دو درجن انڈوں کا حلوہ بنا دیا اور انہی انڈوں سے ہماری خوب تواضع کی گئی، ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم کبھی لکھاری نہیں بن سکتے۔

سن 1981ء میں لاہور سے جنگ کا آغاز ہوا، والد گرامی بھی جنگ کی ابتدائی ٹیم کا حصہ تھے،بچوں کا جنگ جب آتا تو ہم بڑی حسرت سے دل مسوس کر رہ جاتے کہ کبھی ہماری تحریر بھی شائع ہو، جنگ میں تحریر بھیجنے کی تو ہم والد گرامی کی وہاں موجودگی کی وجہ سے جرأت نہیں کر سکتے تھے، گھر میں بچوں کے رسائل بھی آیا کرتےتھے، ان میں تعلیم و تربیت، نونہال، ہونہار، بچوں کا باغ، بچوں کی دنیا اور جگنو نمایاں ہیں۔

ہماری سب سے پہلی تحریر جو اشاعت پذیر ہوئی وہ ایک نعت ہے جو جگنو میں شائع ہوئی، میرے والد گرامی نعت گو شاعر بھی ہیں اور مظفر وارثی صاحب ہمارے پڑوسی تھے اور جناب حفیظ تائب صاحب بھی گھر میں اکثر تشریف لاتے، شائد ان کے زیر اثر کسی گداز لمحےمیں نعت کی آمد ہو گئی۔

والد گرامی بہت خوش ہوئے اور ہمیں بتایا کہ حوصلہ شکنی میں نے اس لیے کی تھی کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم اس وادی پرخار میں قدم رکھو، تم سائنس کے طالب علم ہو،ابھی صرف اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔

خیر وہ دن اور آج کا دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے ہماری ہزاروں تحریریں اور درجنوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں،کل میری ایک اسٹوڈنٹ حنا نے مجھے بتایا کہ سرجیو پر آپ کے ننانوے بلاگ شائع ہو چکے ہیں،ہمیں بہت خوشگوار حیرت ہوئی اور اللہ کریم کا شکر ادا کیا اور ادارے جنگ اور جیو میڈیا گروپ کے لیے ممنونیت کے جذبات کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔

جیو کی ویب سائٹ پر گزشتہ برس ستمبر میں بلاگ کا سلسلہ شروع کیا گیا اور میرا پہلا بلاگ 4 ستمبر کو 'حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘ کے عنوان سے تھا، آج میرے بلاگز نے گولڈن جوبلی مکمل کر لی ہے، چند ماہ قبل مجھے ملک کےبہترین بلاگر کا ایوارڈ بھی ملا،ان بلاگز میں گزشتہ ایک سال کے دوران ملک کے سیاسی حالات، بین الاقوامی معاملات، سماجی مسائل، ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے اسموگ، معاشیات، مغل تاریخ، صحافتی ضابطہ اخلاق،صحت سمیت مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

تقریبا 40بلاگز حالات حاضرہ پر ہیں، بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بلاگز گزشتہ ایک برس کے اہم واقعات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔