پاکستان پر 3جرمن خواتین کے احسانات

پاکستان تین جرمن خواتین کے احسانوں تلے دبا ہوا ہے اور اس حقیقت کو بہت کم لوگ جانتے ہیں، جن عظیم ہستی نے پاکستان کا خواب دیکھا جن کو دانائے راز کہا جاتا ہے ، انہی کے خواب کی تعبیر ہمارا پاکستانہےاور جناح نے اسی خواب کی تعبیر ہمارے سامنے رکھی، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح دنیا کے اس عظیم فلسفی دانشور اور مدبر علامہ محمد اقبال کو یاد کر رہے تھے۔

اقبال کی زندگی پر ان کی جرمن استاد ایما ویگے ناسٹ کا بہت گہرا اثر تھا، اقبال کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیمبرج سے ہائیڈل برگ جانے سے پہلے کے اقبال اور بعد کے اقبال میں بہت فرق آ چکا تھا، شوخ و شرارتی اقبال جرمنی سے واپسی کے بعد ایک سنجیدہ اقبال بن چکے تھے، ان کے نظریات میں بہت تبدیلی آ چکی تھی۔

اپنی وفات سے چند سال پہلے 20 اکتوبر 1931ء کو لندن سے اقبال نے ایما کے نام اپنے خط میں لکھا کہ میں اس وقت کو کبھی نہیں بھول سکتا جب ہم دونوں ایک ساتھ دریائے نیکر کے کنارے گھوما کرتے تھے اور آپ نے مجھے گوئٹے کا فاؤسٹ پڑھایا تھا،ان جرمن خاتون نے بھی کبھی شادی نہیں کی، اقبال کو جرمنی سے اتنا لگاؤ تھا کہ انہوں نے اپنی صاحبزادی کی گورنس بھی ایک جرمن خاتون کو رکھا، اقبال اس جرمن ماحول اور فلسفے کو کبھی فراموش نہیں کر سکے۔

دوسری جرمن خاتون ڈاکٹر این میری شمل ہیں جو اقبال اور پاکستان کی دیوانی تھیں، انہوں نے اسلام اور اقبال کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔

تیسری جرمن خاتون ڈاکٹر رتھ فاؤ ہیں جن کے دل میں پاکستان دھڑکتا تھا بلکہ ان کے دل میں پاکستان تھا، اپنی پوری زندگی ایک ایسی قوم کےلیے وقف کر دی جو جرمن نہ تھی، پاکستان سے جذام جیسی موذی بیماری کا خاتمہ کر دیا، جن کو پاکستان کی مدر ٹریسا کہا جاتا تھا، اپنی جوانی کا بہترین دور جذام کے ان مریضوں کی تیمارداری میں گزار دیا جن کے اپنے بھی دھتکار چکے تھے۔

اگر ہم کہیں کہ وہ فرشتہ تھیں تو یہ بھی غلط ہو گا کیونکہ فرشتوں کی تو اپنی کوئی مرضی ہی نہیں ہوتی، ڈاکٹر رتھ فرشتوں سے بھی بڑھ کر ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے اپنے لیے ایسی زندگی کا انتخاب کیا جس میں دکھ، غم اور صدموں کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔

ڈاکٹر رتھ نے صرف انسانیت دیکھی انہوں نے یہ نہ سوچا کہ یہ ملک ان کا وطن نہیں ہے، یہاں کے باشندے ان کے ہم مذہب بھی نہیں ہیں، اس حقیقت کو انہوں نے ثابت کر دیا کہ انسانیت کسی مذہب کو نہیں دیکھا کرتی اور دنیا کا کوئی مذہب بھی کسی جبر کا قائل نہیں، افسوس ہم سلامتی کے مذہب کے پیروکار ہو کر اس مقام سے محروم ہو گئے ہیں۔

ایسی دنیا میں یہ رتھ فاؤ کون تھیں کہاں سے آ گئیں،کمال کے لوگ ہوتے ہیں، شاید خدا انہی لوگوں کے قریب کہیں ملتا ہے، ایسی مطلبی دنیا میں کبھی کبھی خدا ایسے لوگوں کو بھیج دیتا ہے اور محبت کی طاقت ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے کہ انسانوں سے محبت کرو، بے گناہوں کومیرے نام پر مت مارو۔

بہت خوشی ہوئی کہ جب دیکھا کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی تدفین کے موقع پر صدر پاکستان ممنون حسین، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ سمیت اعلیٰ فوجی قیادت ان عظیم خاتون کو دنیا سے رخصت کر رہی تھی، جس نے اس ملک کو صرف دیا اور لیا کچھ بھی نہیں، بعض لوگ اپنی ذات میں ایک کائنات ہوتے ہیں، بلاشبہ ڈاکٹر رتھ ایک ایسی ہی کائنات تھیں جس کا محور و مرکز صرف پاکستان تھا، اقبال کے ہی الفاظ میں یہ دعا بے اختیار دل سے نکل رہی ہے

آسمان تیری لحد پہ شبنم آفشانی کرے

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔