پارٹی قیادت مشکل میں ہے، اختلاف رائے کے اظہار کیلئے وقت مناسب نہیں، نثار

سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ وزارت سے علیحدگی کی وجہ کی تشہیر کرنا مناسب نہیں کیوں کہ اس وقت پارٹی اور قیادت دونوں مشکل میں ہیں۔

پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں شامل نہ ہونے کی وجہ پارٹی سے اختلاف رائے ہے تاہم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن میرا اختلاف رائے آج بھی ہے۔

سابق وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ  جس شخص کی ساری زندگی ایک جماعت میں گزری ہو اور اس کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ کسی عہدے کی وجہ سے الگ ہوئے تو یہ تضحیک آمیز ہے، پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کسی عہدے کا امیدوار نہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ پارٹی میں بعض معاملات پر اختلاف رائے ہے جس کا اجلاس کے دوران کھل کر اظہار کرتا ہوں جب کہ کابینہ میں بھی بات کی لیکن میری باتیں کسی نے لیک کردیں، سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں کی گئیں باتیں پارٹی لیول پر تھیں جو لیک کی گئیں اور باتیں لیک کرنے والے بددیانت ہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ہم سچ کہنا اپنی روایت بنالیں تو بہت سی خامیاں دور ہوجائیں گی، ڈان لیکس انکوائری کا فیصلہ حکومت نے کیا اور یہ رپورٹ منظرعام پر لانی چاہیے، حکومت پر ذمے داری عائد ہوتی ہےکہ وہ ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر لائے۔

سابق وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے معاملے پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا، عدالت کا تحریری حکم آیا تو ہم نے مشرف کو جانے دیا لیکن ٹرائل کورٹ پرویزمشرف کے لئے لکھے گا تو ریڈوارنٹ جاری ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کا سوا چار سال کا ریکارڈ سامنے رکھنا چاہتا ہوں، وزارت داخلہ کے پاس ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں ہوتی، بلاجواز تنقید کی گئی لیکن کبھی جواب نہیں دیا، لال شہباز قلندر مزار پر دھماکا ہوا تو اس پر ایک جماعت کی جانب سے بلاجواز تنقید کی گئی تو پھر جواب دیا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ وزارت داخلہ پالیسی میکنگ ادارہ نہیں ہے، قانون نافذ کرنا مکمل طور پر صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے لیکن اگر کوئی دھماکا ہوتا ہے تو وزارت داخلہ کو ذمہ دار ٹہرا دیا جاتا ہے اور اگر صوبوں میں جب بھی امن و امان کا مسئلہ ہوا تو ذمے داری مجھ پر ڈالی گئی۔

سابق وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات میں جنرل کیانی اور جنرل ظہیرالاسلام آن بورڈ تھے، سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی مذاکرات کے لئے رضامند نہ تھے، میں وزیراعظم کے پاس گیا اور کہا کہ سینٹرل انٹرنل سیکیورٹی کا اعلان کرنا چاہیے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کراچی ایئرپورٹ حملے کے بعد فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا اور وزیراعظم کی منظوری سے 27 اگست کو کراچی آپریشن کا اعلان کیا لیکن آج کراچی آپریشن کے بہت سے دعویدار بنے ہوئے ہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری مرحلے میں ہے، آج پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی نیٹ ورک نہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کا گراف نیچے آیا ہے، ہمیں ثابت قدمی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

سابق وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے مطابق بہت سے لوگوں کے نام 30 سال سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (سی ایل میں) میں تھے، اپنے دور میں 10 ہزار سے زائد لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکالے، غیر ملکیوں کے حاصل کردہ 32 ہزار پاکستانی پاسپورٹس منسوخ کیے اور 2 لاکھ سے زیادہ ممنوعہ بور کے لائسنس منسوخ کیے گئے۔

چوہدری نثار کے مطابق ' غیر ملکیوں کے 400 گھر اسلام آباد میں ایسے تھے جو اپنے آپ کو رجسٹر نہیں کرانا چاہتے تھے جب کہ کہا جا رہا تھا کہ اسلام آباد میں بلیک واٹر یا پتا نہیں کون کون رہائش پذیر ہے لیکن 24 گھنٹے کے نوٹس پر اسلام آباد میں ان غیر رجسٹر گھروں کو خالی کرایا گیا اور اب اسلام آباد میں مقیم تمام غیر ملکیوں کا ریکارڈ وزارت داخلہ کے پاس ہے۔

سابق وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان بنانا ری پبلک نہیں اب کسی کو ایئرپورٹ پر ویزا نہیں مل سکتا، پہلے ایئرپورٹ پر سفارش سے ویزے دیے جاتے تھے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ چار سال میں ملک کی اندرونی سیکیورٹی بہتر بنانے کے لئے ایمانداری سے کام کیا، کراچی آپریشن صوبائی، وفاقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے اکھٹے ہونے سے کامیاب ہوا جس کے لئے سول آرمڈ فورسز اور پولیس کی بہت بڑی قربانیاں ہیں۔

چوہدری نثار کی ناراضگیاں 

گزشتہ ماہ بھی چوہدری نثار کا پریس کانفرنس کے دوران اہم اعلان متوقع تھا تاہم پریس کانفرنس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں نے ملاقات کر کے انہیں منالیا تھا جس کے بعد انہیں پریس کانفرنس ملتوی کرنا پڑی۔

پاناما کیس کا فیصلہ آنے سے قبل 27 جولائی کو بھی چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور ن لیگ کے ساتھ اپنی ساری زندگی داؤ پر لگائی اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھا لیکن مجھے سینیر ترین مشاورت میں نہیں بلایا گیا اور میرے لیے یہ کہنا تضحیک آمیز ہے کہ مجھے مشاورت سے الگ کیا گیا۔

چوہدری نثار نے حال ہی میں ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے دوران مشاورت کے بغیر پارٹی کے قائم مقام صدر سردار یعقوب خان نصر کے انتخاب کے طریقہ کار پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ جب لاہور میں بیٹھ کر ہی فیصلے کرنے ہیں تو پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ 

واضح رہے کہ چوہدری نثار موجودہ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہیں اور انہوں نے میاں نوازشریف کی اسلام آباد سے لاہور ریلی میں بھی شرکت نہیں کی تھی ۔

خیال رہے کہ چوہدری نثار نے پرویز رشید کا نام لیے بغیر ان پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اتنے معصوم ہیں تو اپنی حکومت کو ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مشورہ دیں جب کہ پرویز رشید کی جانب سے بھی وزارت داخلہ سے متعلق بیان دیا گیا تھا۔ 

مزید خبریں :