پاکستان نے ’مخصوص امریکی الزامات‘ سختی سے مسترد کردیئے

اسلام آباد: قومی سلامتی کمیٹی نے امریکا کے پاکستان پر مخصوص الزامات کو مسترد کردیا۔

امریکی صدر نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی پالیسی کے اعلان پر پاکستان پر سنگین الزامات عائد کیے تھے جس کے پیش نظر وزیراعظم کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔

پاکستان کا امریکی الزامات پر دوست ممالک سے رابطوں کا فیصلہ، ذرائع

وزیراعظم ہاؤس میں 5 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اجلاس میں چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور مشیر قومی سلامتی نے شرکت کی جب کہ اجلاس میں وزیر خارجہ، خزانہ، داخلہ سمیت دیگر حکام بھی شریک تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں امریکی پالیسی پر مجموعی طور پر پاکستان کی حکمت عملی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں، سفارتی کوششیں، پاک افغان سرحد کو مؤثر بنانے کے اقدامات اور افغان امن عمل کا حصہ بننے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسی پر پاکستان کی جانب سے جامع حکمت عملی اور مفصل جواب تیار کرلیا گیا ہے جب کہ اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے سفارتی آپشنز اور اب تک کے اقدامات کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کےمطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن کیے گئے اور جو جاری ہیں، ان میں حاصل تمام کامیابیوں کو بھی سامنے لایا جائے گا۔

 افغانستان کی گھمبیر صورتحال پاکستان ہی نہیں عالمی برادری کے لیے بھی چیلنج ہے، اعلامیہ

اجلاس میں امریکی پالیسی کے بعد دوست ممالک کے ساتھ مؤثر رابطے کرنے کے لیے بھی جامع پلان بنالیا گیا اور سفارتی سطح پر دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے امریکا کے پاکستان پر مخصوص الزامات کو مسترد کردیا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی گھمبیر صورتحال پاکستان ہی نہیں عالمی برادری کے لیے بھی چیلنج ہے، پاکستان، افغانستان میں امن واستحکام کی عالمی کوششوں کے ساتھ ہے، پاکستان نے افغانسان میں سماجی بہبود کے لیے ایک ارب امریکی ڈالر خرچ کیے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ مشرقی افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں قائم ہوئیں، پاکستان مخالف دہشت گرد گروہ سرحد پار سے کارروائی کرتے ہیں، دہشت گردوں کا خاتمہ کیے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں۔

’افغان سرحد سے پاکستان میں دہشتگردی کرنے والوں کو سامنے لایا جائے‘

اعلامیے میں کہا گیا کہ افغان سرحد سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو سامنے لایا جائے اور امریکا افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔

اعلامیے کے مطابق افغانستان میں فوجی کارروائی ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنی، پاکستان کو افغان مہاجرین کا بھاری بوجھ برداشت کرنا پڑا، پاکستان کو منشیات اور اسلحے کی نقل و حمل جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ 

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ افغانستان پاکستان کا قریبی ہمسایہ ہے، افغان بحران میں پاکستان نے افغان بھائیوں کی مدد کی، افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے ذاتی مفاد میں ہے لیکن پاکستان کو قربانی کا بکرا بناکر افغانستان مستحکم نہیں ہوسکتا۔

اعلامیے کے مطابق ماضی میں امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون ہمارے عزم کا عکاس ہے  لہٰذا امریکا امداد کی بجائے ہماری کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف کرے۔

’امریکا امداد کی بجائے ہماری کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف کرے‘

اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ہزاروں جانوں کا نذرانہ دیا اور اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی، افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جاسکتی۔

اعلامیے کے مطابق پاکستان افغان عوام اور قیادت پر مشتمل مفاہمتی عمل کی حمایت کرتا ہے، پاکستان افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے ہر ممکن تعاون کو تیار ہے، افغانستان میں استحکام کی کسی بھی حکمت عملی میں پناہ گزینوں کی واپسی اہم ہے

واضح رہے کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز سعودی عرب کا بھی دورہ کیا جہاں سعودی ولی عہد سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔

جب کہ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر کے سامنے دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو امریکا سے کسی مالی یا عسکری امداد کی ضرورت نہیں، دہشت گردی کے خلاف ہمارےکردار اور اعتماد کو تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے۔

مزید خبریں :