نواز شریف کے نااہلی سے متعلق وکلا کے سامنے 12 سوالات


لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ مسلمہ اصول ہے کہ عدالتوں کا فیصلہ انصاف کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے لیکن پاناما فیصلہ غلط بنیادوں اور غلط انداز میں کیا گیا اس لئے ایسا فیصلہ واپس لیا جائے۔

مسلم لیگ (ن) کے زیر اہتمام منعقدہ وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ عوام نے تین بار مجھے منتخب کیا لیکن مختلف طریقے سے ہٹا دیا گیا اور اب کی بار ایک عدالتی فیصلے نے مجرم قرار دے کر نااہل قرار دیا۔

نواز شریف نے کا کہا کہ مولوی تمیزالدین کیس سے ظفر علی شاہ کیس تک ایسے فیصلے آج کس نظر سے دیکھے جاتے ہیں، تاريخ نے پاناما فیصلےکو بھی اُن فیصلوں میں شامل کردیا جو بےتوقیر ہوچکے اور ایسے فیصلے پر عمل درآمد کے باوجود تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرا جرم کیا ہے، 'جرم یہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ کیوں نہیں لی'، اس تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ 70 برس کے دوران کوئی ایک وزیراعظم بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکا۔

نواز شریف نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں نواز شریف کی کسی سے نہیں بنتی، ممکن ہے مجھ میں کوئی کمی ہو لیکن کیا لیاقت علی خان سے آج تک کسی وزیراعظم کی نہیں بنتی اور کیا 18 کے 18 وزیراعظم نواز شریف تھے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج اس کی اصلاح ہونی چاہیئے، اسے تبدیلی کہیں یا انقلاب، اب اس مرض کا علاج ہونا چاہیئے، 70 سالوں پر محیط اس افسوسناک تاریخ کا دھارا ہمیں موڑنا ہوگا، اگر اسے نہ موڑا تو وطن عزیز کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ 

سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاناما کیس کا ایک فیصلہ 20 اپریل کو اور دوسرا 28 اپریل کو سامنے آیا، پہلے فیصلے میں درخواستوں کو بے بنیاد کہا گیا اور دوسرے فیصلے میں وہ درخواستیں بامقصد ہوگئیں۔

نواز شریف نے کہا کہ پوری سنجیدگی اور نیک نیتی کے ساتھ قومی ڈائیلاگ کا آغاز کرنا چاہیے جس کا مقصد بیماری کا تعین اور اس کا علاج بھی تجویز کرنا ہے اور  میری ذات کو قومی ڈائیلاگ کی بحث سے باہر رکھا جائے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میری جدوجہد یا تبدیلی کی خواہش یا انقلاب کی آرزو کا حاصل ملک کی تقدیر بدلنا ہے، ووٹ کی بےحرمتی سے ہم قوموں کی برادری میں ایک تماشا بنے ہوئے ہیں، میری جدوجہد کا مقصد 20 کروڑ عوام کی تقدیر بدلنا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے اپنی نااہلی سے متعلق وکلا کے سامنے 12 سوالات:

1. کبھی آج تک ایسا ہوا ہے کہ واٹس ایپ کال سے پراسرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کو تحقیقات کے لئے انتخاب کیا گیا ہو؟

2. کبھی آج تک اس طرح کے الزامات کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ نے اس قسم کی جے آئی ٹی تشکیل دی؟

3. کیا قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق اور تفتیش کے لئے خفیہ ایجنسی کے ارکان کو تفتیش سونپی گئی؟

4. کیا آج تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایسی جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی ہے؟

5.  کیا کسی بھی پٹیشنر نے دبئی کی کمپنی اور میری تنخواہ پر نااہلی مانگی تھی؟

6. کیا کوئی بھی عدالت واضح ملکی قوانین کو نظرانداز کر کے کسی ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے؟

7. کسی ایک مقدمے میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ 4 فیصلے سامنے آئے ہوں.

8. کیا کبھی وہ جج صاحبان پھر سے حتمی فیصلے والے بینچ میں شامل ہوئے ہوں جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں؟

9. کیا ان جج صاحبان کو بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور نہ اس پر سماعت کے مرحلے میں شریک ہوئے؟

10. کیا کبھی پوری عدالتی تاریخ میں ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے ایسے جج کا تقرر کردیا جائے جو پہلے ہی خلاف فیصلہ دے دے؟

11. کیا سپریم کورٹ کے ایک جج کی نگرانی کے نیچے ٹرائل کورٹ کا جج آزاد طریقے سے کام کرسکتا ہے؟

12. کیا نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر عدالتی ہدایت دی جاسکتی ہے؟

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنی نظرثانی اپیلوں میں اپنے ان سوالات کو اٹھایا ہے۔

وکلا کنونشن میں شرکت کے لئے سابق وزیراعظم نواز شریف آئے تو وکیلوں نے کھڑے ہو کر ان کے حق میں نعرے لگانا شروع کیے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزرا بھی وکلا کنونشن میں شریک تھے۔

مزید خبریں :