برما ...شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے

شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’بانگ درا‘ میں اپنی نظم ’غلام قادر روہیلہ‘ میں اقوام کے عروج و زوال کے اہم اسباب میں سے ایک اہم سبب پر روشنی ڈالی ہے اسی لئے انہیں ’دانائے راز‘ کہا جاتا ہے:

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر

حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

غلام قادر روہیلہ برصغیر کی تاریخ میں ایک انتہائی سفاک اور سنگدل شخص گزرا ہے جس نے مغل شہنشاہ شاہ عالم کی آنکھیں نکلوا ڈالیں اور مغل شہنشاہیت کے جبروت اور سطوت کی نشانی لال قلعہ میں تیمور اور بابر کی بیٹیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا۔

علامہ اقبالؒ نے برصغیر کی تاریخ کے اہم دردناک واقعے کی طرف اشارہ کردیا ہے، جب غلام قادر روہیلہ نے لال قلعہ کے دیوان خاص میں جہاں کبھی شہاب الدین محمد شاہجہاں اور اورنگزیب عالمگیر تخت طاؤس پر بیٹھ کر ہندوستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے، اسی دیوان خاص میں اس نے مغل شہزادیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا اور خود خنجر پاس رکھ کر سوتا بنا لیکن مغل شہزادیاں ناچتی رہیں،اس وقت غلام قادر روہیلہ نے یہ تاریخی جملہ کہا: ’’میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت و حمیت باقی رہ گئی ہو گی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے مجھے قتل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، اب مغل شہنشاہیت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا‘‘۔

شاہانِ مغلیہ کے آخری چراغ بہادر شاہ ظفر کی قبر بھی رنگون میں ہی ہے، روہنگیا برما کے اراکان اور بنگلا دیش کے چٹاگانگ میں بسنے والے مسلمانوں کا نام ہےـ، اس علاقے میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کا آغاز 1559ء میں ہوا، جب مسلمانوں پر جانور ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔

اسی دور میں مغل شہنشاہ جلاالدین محمد اکبر نے برصغیر کے ایک بڑے حصے پر سلطنت مغلیہ کا تسلط قائم کر دیا، دنیا بھر میں مغل اعظم کا ڈنکا بجنے لگا، چنانچہ اکا دکا واقعات کے علاوہ امن رہا، جب تک مغل سلطنت کا بھرم قائم رہا، اس وقت تک برصغیر تو کیا دنیا میں کسی قوم کی جرأت نہ تھی کہ مسلمانوں کو ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھ سکے، ایک طرف سلطنت مغلیہ کی شان و شوکت دوسری طرف سلطنت عثمانیہ، یورپ،افریقہ اور ایشیاء پر عظمت کے جھنڈے گاڑ رہی تھی۔

۩

جب نادر شاہ لٹیرے نے دہلی لوٹی تو مغل اقتدار کا بھرم زمانے سے اٹھ گیا، اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا سامنے آ گیا پھر کیا انگریز، کیا فرانسیسی، سکھ، مرہٹے اور دیگر، اس وقت سے مسلمان صرف پس رہے ہیں۔

برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے اس ظلم، بربریت اور سفاکیت کی مذمت کرتے ہوئے امن کا نوبل انعام پانے والی آنگ سان سوچی سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے لیکن انہوں نے کیا کرنا ہے وہ اس سے پہلے ہی مسلمانوں کو ’صبر‘ کی تلقین کرتے ہوئے یہاں تک کہہ چکی ہیں کہ ’’رہنما کو مسائل کی بنیاد دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کے لیے کھڑے نہیں ہو جانا چاہئے‘‘ اور یہ سب بدھ مت کے پیرو کار کر رہے ہیں۔

مہاتما بدھ کو دنیا میں امن کا سب سے بڑا پیامبر اور عدم تشدد فلسفے کا داعی سمجھا جاتا ہے اور بدھا کی تعلیمات کے مطابق جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔

اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں کو ’روئے زمین کی سب سے مظلوم ترین اقلیت‘ قرار دے رکھا ہے، موجودہ صورتحال پر اقوام متحدہ نے بھی صرف مذمت کرنے پر اکتفا کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے،برمی مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات انہیں تو خود کو ملک کا شہری کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔

میانمار (برما) غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے، برمی بودھوں کا خیال ہے کہ چونکہ مسلمان یہاں غیر قانونی طور پر ہجرت کرکے آئے اس وجہ سے انہیں خود کو ملک کا شہری کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اس لئے بار بار مسلمانوں کے خلاف میدان سجایا جاتا ہے تا کہ مسلمان یہاں سے واپس ہجرت کرکے اپنے ملکوں میں چلے جائیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد یہاں سے ہجرت کرکے بنگلا دیش کے ساحلی علاقوں پر پناہ لینے پر مجبورہوگئی ہے۔

پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے ان لوگوں کو نہ صرف شہریت دی بلکہ انہیں اپنے یہاں آباد بھی کیا، بے شمار روہنگیا بنگلادیش اور بھارت کے راستے پاکستان میں آکر آباد ہوئے،’اراکان ہسٹوریکل سوسائٹی‘ کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی دو لاکھ سے زائد برمی مسلمان کراچی میں آباد ہیں۔

برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتلِ عام 1962ء میں ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دے کر اُن کے خلاف آپریشن شروع کردیا، جو وقفے وقفے سے 1982ء تک جاری رہا اور اس میں کم و بیش 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور اندازاً 20 لاکھ کے قریب مسلمان اس دور میں بنگلا دیش، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کرگئے۔

چند برسوں میں گوتم بدھ کے پیروکاروں نے نہتے مسلمانوں پر انسانی تاریخ کا بدترین ظلم روا رکھا ہوا ہے، جس سے چنگیز خان اور ہلاکو خان بھی اپنی قبروں میں تڑپ اٹھے ہوں گے، مذہب کے نام پر ایسی سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا، انسانیت کہاں ہے؟ آج بوسنیا اور چیچنیا کے بعد اب بربریت، وحشت اور ظلم کا برہنہ ناچ برمی مسلمان بچوں، عورتوں، بزرگوں، جوانوں کے بے بس لاشوں پر رقصاں ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کی ایک تاریخ 1997ء میں بھی رقم کی گئی جب 16 مارچ 1997ء کو دن دیہاڑے جنونی بدھ شہر ’مندالے‘ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل ہوگئے اور مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے لگے، گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرِ آتش کردیا گیا،ایک رپورٹ کے مطابق ابھی صرف چند ماہ میں 90 ہزار برمی مسلمان ہجرت پر مجبور کیے جا چکے ہیں۔

ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے‘‘،ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اگر آج ہم برمی مسلمانوں پر ہونے والے شیطان کو بھی شرما دینے والے مظالم پر تکلیف محسوس نہیں کر رہے تو اس حدیث مبارکہ کی رو سے ہم مسلمان نہیں ہو سکتے۔

وہ بھی وقت تھا کہ ایک بیٹی کی پکار پر حجاج بن یوسف جیسا ظالم اور سفاک شخص بھی تڑپ اٹھا تھا اور اس نے محمد بن قاسم کو دیبل کے فرعون راجہ داہر کو سبق سکھانے بھیجا، آج ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں اتنی عصبیت بھی نہیں رہی کہ وہ کم از کم او آئی سی کا اجلاس ہی بلا لیں، برما کے سفیروں کو اپنے اپنے ممالک سے نکال ہی دیں، برما کی ننگ انسانیت حکومت اور وحشی درندوں کو اپنے قریب واقع عظیم ملک جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت جس کے پاس سیکڑوں ایٹم بم ہیں، بھارت کے آخری کونے تک جس کے میزائلوں کی رینج ہے سے بھی ڈر نہیں لگا۔

بنگلا دیش کا کیا کہنا، وہ تو بھارت کی پیرا سائٹ ریاست اور نام کا ہی آزاد ملک ہے، اگر ہمارے ان ایٹم بموں اور میزائلوں کے ڈھیر، دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت، بہترین فوج، اس دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی اور 57 آزاد اسلامی ممالک سے ڈر نہیں لگا تو دانائے راز ٹھیک کہہ گئے ہیں کہ سارے زمانے پر ہمارا بھرم کھل چکا ہے، حمیت اور غیرت جس کا نام ہے وہ مسلمانوں کے یہاں سے رخصت ہو چکی ہے، اب انتظار کریں اس وقت کا جب

شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔