فلم ریویو: ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘

کیا فلم سنیما میں آ نکھیں بند کرکے صرف سُنی بھی جاسکتی ہے؟ کیا ”پنجاب نہیں جاؤں گی “ بالی وڈ کی فلم” نمستے لندن“ سے متاثر ہے؟  کیا ہمایوں اورمہوش کی جوڑی کی کیمسٹری چھوٹی اسکرین کی طرح بڑی اسکرین پر بھی جمی؟ 

کیا اس بار ہمایوں بطور اداکار کامیاب ہوگئے؟ کیا وسیم عباس ، صباحمید، بہروز سبزواری کے کردار محض بھرتی کے ہیں؟

 کیا فلم اپنی لاگت سینما اسکرین سے کما کر پورے کرلے گی؟ کیا یہ فلم کروڑوں کی ففٹی بنانے والی پہلی فلم ہوگی؟ کیا پنجاب نہیں جاؤں گی لالی وڈ کی ”شعلے“ ہے؟

کیا فلم کے ہدایتکار ندیم بیگ نے اس فلم میں پاکستان کی کامیاب ترین فلم”جوانی پھر نہیں آنی “ سے بہتر کام کیا ہے؟ کیا احمد علی بٹ کا ڈانس نمبر نامعلوم افراد میں صدف کنول کے آئٹم سانگ سے زیادہ پاپولر ہے؟ 

کیا پنجاب نہیں جاؤں گی کا دورانیہ تھوڑا سا زیادہ ہے؟ کیا یہ فلم ٹیکنیکل میدان میں اب تک پاکستان کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے؟ کیا پنجاب نہیں جاؤں گی انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھارتی فلموں کو شکست دے گی ؟ کون ہیں جن کے آگے فلم کے گھبرو ہیرو کا جادو بھی نہیں چلا؟

کون ہے جس نے اپنی پہلی ہی فلم سے اپنے سب خاندان والوں کو ہراکر اسی بڑے فلمی خاندان کے دل جیت لیے؟ کیا اتفاق اِس فلم کی کاسٹنگ کو کہتے ہیں؟کیا سگریٹ شراب سے بھی بری چیز ہے؟ 

 کیا پنجاب نہیں جاؤں گی ”مکمل“ فیملی فلم ہے ؟ کیا فلم میں کوئی جھول نہیں؟کیا واقعی ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ اس سال کی سب سے اچھی فلم ہے ؟فلم کے پاس ایک مہینے کا وقت کیوں ہے؟ کیا یہ فلم سینما میں لگنے والا ڈرامہ ہے ؟۔

فلم کا ریویو شروع کرنے سے پہلے اور ساتھ ہی ان سوالات کے جوابات دینے سے پہلے ہی آپ کو بتادیں کہ آپ کے لیے آگے پڑھنے سے بہتر ہے کہ آپ پہلے فوراً اپنی اور پوری فیملی کی ٹکٹ بُک کروائیں اور یہ فلم دیکھیں۔

ہم آپ کو بار بار دیکھنے کا نہیں کہیں گے  کیونکہ ایک بار جو آپ نے اور آپ کی فیملی نے فلم دیکھ لی تو آپ خود یہ فلم بار بار بڑی اسکرین پر دیکھنے کے لیے مجبور ہوجائیں گے۔

کچھ سوالات کے جوابات ہم آپ کو یہاں دیں گے خود کے جواب آپ خود سینما میں جا کر تلاش کریں۔۔

دس سال پہلے ریلیز ہونے والی فلم ”خدا کے لیے“ کے بعد یہ دوسری فلم ہے جس نے برطانیہ کی مارکیٹ میں بالی وڈ کی فلموں کو دھول چٹائی ہے۔

یقینا’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ اس سال کی سب سے بہترین اور غالباََ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی تاریخ کی بھی بہترین(ٹیکنیکلی ساؤنڈ) فلموں میں سے ایک ہے۔ 

کامیابی کا فیصلہ تو باکس آفس کرے گا اور سب کے سامنے آ بھی جائے گا لیکن بالی وڈ کی کمزور فلموں اور اپنی مضبوط کہانی،ڈائریکشن، سینماٹوگرافی، بیک گراؤنڈ میوزک، مکالمے، اداکاری، مکالمے، آرٹ ڈیزائن، کاسٹیو م، گانوں اور سب سے بڑھ کر اسکرین پلے کی وجہ سے یہ فلم انٹرنیشنل مارکیٹ خاص طور پر برطانیہ، عرب امارات، کینیڈا میں بھی بڑی ہٹ ہوگی۔

فلم کی حویلی کا دلکش منظر —فوٹو اسکرین گریب

پنجاب کے بیک گراؤنڈ اور کلچر کی وجہ سے اس کا ٹارگٹ آڈینس اور بڑھ گیا ہے۔

اس فلم کا بزنس یہ بھی طے کرے گا کہ”ورڈ آف ماؤتھ“ سے بزنس دگنا ہوتا ہے یا نہیں۔ 

دس سال پہلے ریلیز ہونے والی فلم ”خدا کے لیے“ کے بعد یہ دوسری فلم ہے جس نے برطانیہ کی مارکیٹ میں بالی وڈ کی فلموں کو دھول چٹائی ہے۔

اس وقت ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ کو اتنا کھلا میدان ملا ہے کہ اس فلم کا مقابلہ کرنے کیلئے اس ماہ کے آخر میں ریلیز ہونے والی جڑواں سے پہلے بالی وڈ کی کوئی فلم نہیں ہے۔

ملک بھر میں اس وقت تک ’’نامعلوم افراد 2‘‘ کا پلہ بھاری ہے لیکن امید ہے کہ ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ دنیا بھر سے 50 کروڑ کا سنگ میل عبور کرنے والی پہلی پاکستانی فلم بن سکتی ہے۔

فلم میں منڈا پنجاب کا اور ہیروئن کراچی کی ہے ،یعنی دو مختلف ثقافت رہن سہن اور مزاج کا ٹکراؤ۔

اور یہ واضح رہے  کہ 50  کروڑ بالی وڈ کی فلم کے دو سو کروڑ کے برابر ہوں گے کیونکہ جتنی اسکرین بالی وڈ کی فلموں کو ملتی ہے اس کی آدھی تو کیا چھٹانک برابر اسکرین بھی اس فلم کو نہیں ملیں۔

فلم کی کہانی جذبات، رشتوں، محبت، نفرت، دوستی ،دشمنی ،احسان ،خاندان، دھوکے اور عشق سے گوندھی ہوئی ہے اور فلم کا ہیرو مجنوں یا مہینوال نہیں بلکہ” ہیر“ کا دیوانہ رانجھا ہے۔

فلم یقینا لالی وڈ کے لیے ”شعلے “ تو نہیں لیکن ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ کے برابر تو ضرور کھڑی ہوسکتی ہے،اُس فلم کے اتنے عرصے چلنے میں بہت سے عوامل ہیں لیکن رومانس اور رشتوں کے میدان میں اِس فلم کا معیار بھی بہت آگے ہے۔

 اتفاق سے دونوں فلموں کا بیک گراؤنڈ لندن اور پنجاب کا ہے  اور دونوں میں سرسوں کے کھیتوں کی خوبصورتی بھی ہے اور سدا بہار نہیں تو یادگار رومانس بھی ہے۔

فلم میں منڈا پنجاب کا اور ہیروئن کراچی کی ہے ،یعنی دو مختلف ثقافت رہن سہن اور مزاج کا ٹکراؤ۔

فلم میں رقص کا منظر —فوٹو بشکریہ فیس بک

’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ ایک ہی ملک کے دو حصوں کی کہانی ہے لیکن اس میں” دیسی بابو اور ولایتی میم“ ایسے نہیں دکھائے گئے ہیں جیسے اکشے کمار اور کترینہ کیف کی ”نمستے لندن“ میں دکھائے گئے تھے جو خودمنوج کمار کی ” پورب اور پچھم“ سے متاثر تھی۔

لہذا دونوں فلموں کو ملانا دور کی بات موازنہ بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمایوں کے کردار میں اکشے کی جھلک تھی نہ مہوش کا رول کترینا جیسا ہے بلکہ ان دونوں  کی کیمسٹری ”دل لگی“ سے بھی بہت آگے نظر آئی۔

’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ پاکستان کی مہنگی ترین فلموں میں سے ایک ہے اور اس فلم میں بجٹ کو استعمال بھی خوب کیا گیا ہے اور پیسہ جو خرچ ہوا وہ فلم میں دِکھ بھی رہا ہے۔

دن میں سورج کی کرنوں اور رات میں برقی قمقموں سے روشن اور پنجاب کے رنگوں سے سجی ہوئی بڑی حویلی کی لوکیشن کو زبردست شوٹ کیا گیا ہے اور ساتھی ہی کراچی کی بھی وہ لوکیشن فلم میں دکھائی گئی ہیں جو عام طور پر فلموں میں استعمال نہیں ہوتی۔

جیسے سمندر میں کشتی ہو یا سمندر پر بنے لمبے پل کا منظر گولف کورس میں جاگنگ ہو یا چوڑی خوبصورت سڑک یاپھر دو دریا پر ریسٹورنٹ کا منظر کراچی کی ایسی لوکیشن تو خود کراچی والے بھی کم کم ہی دیکھتے ہیں۔

ہمایوں فواد کے کردار میں پیچھے نہیں رہے اور خوب جم کر اداکاری کی، بھرم کے ساتھ ٹشن دکھائے، رومانس کیا اور ایکشن بھی، فلم میں تھپڑ مارا بھی لیکن خوب سارے سارے تھپڑ کھائے بھی۔

پنجاب کے لہلاتے کھیت، ہریالی، بولی، ڈھول تاشے، پگڑی، جھنڈیاں، پھول سب کچھ تو ہے اس فلم میں۔

فلم میں شروع سے ہی سہیل صاحب کے مکالمے، صباحمید کی محبت، وسیم عباس کا ڈر، احمد علی بٹ کا خلوص، عروہ کی چالاکی ، گاؤں کی حویلی اور ہمایوں کی انٹری آپ کو جکڑ لے گی پھربییو جی(نوید شہزاد) کا پیار اور امل یعنی مہوش کا حسن، اسٹائل اور اداکاری دیکھ کر آپ ڈھائی گھنٹے تک اس فلم کے شکنجے میں بخوشی پھنس جاتے ہیں اتنی بری طرح کہ انٹرویل میں پوپ کارن کی بھوک اور ٹوائلٹ کی ضرورت سب بھول جاتے ہیں۔

فلم میں اداکاری کی بات ہو تو سہیل احمد صاحب، نوید شہزاد صاحبہ، وسیم عباس صاحب، صبا حمید صاحبہ، مہوش حیات، عروہ اور احمد علی بٹ صاحب نے ایسی اداکاری جو سالوں یاد رکھی جائے گی۔

بہروز صاحب اور سفینہ صاحبہ کے کردار اسپیشل اپیئرنس کے ہیں لیکن اتفاق دیکھیے سفینہ صاحبہ کی پہلی ہی فلم اتنی کامیاب ہوئی کہ انھوں نے بطور اداکار پہلی فلم میں ہی کامیابی کے میدان میں اپنے بھائیوں جاوید شیخ اور سلیم شیخ، بھتیجے شہزاد شیخ، بھتیجی مومل شیخ بیٹے شہروز بہو سائرہ شہروز اور میاں جان بہروز سبزواری جیسے اداکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے( یاد رہے ان سب کامیاب اداکاروں کی پہلی فلم باکس آفس پر بری طرح فلاپ یا ایورج فلم تھی)۔

ایک نام آپ نے اوپر نہیں پڑھا ہوگا اور وہ نام ہے فلم کے ہیرو ”چوہدری فواد کھگا “ یعنی ہمایوں سعید کا۔

فلم کے مرکزی کردار ہمایوں سعید کا ایک سین — فوٹو بشکریہ فیس بک

ہمایوں فواد کے کردار میں پیچھے نہیں رہے اور خوب جم کر اداکاری کی، بھرم کے ساتھ ٹشن دکھائے، رومانس کیا اور ایکشن بھی، فلم میں تھپڑ مارا بھی لیکن خوب سارے سارے تھپڑ کھائے بھی۔ 

فلم کا بوجھ بھی خوب اٹھا یا دھماکے دار انٹری دی( ایسی انٹری جو کم ہی ہیروز کو کیرئیر میں ملتی ہے) لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلم کے باقی سارے اداکار اپنی کردار نگاری میں ہیرو سے ایک قدم آگے نظر آئے۔

اور یہ کہ ہمایوں کی بطور پروڈیوسر، ندیم بیگ کی بطور ڈائریکٹر اور خلیل صاحب کی بطور رائٹر اس پوری تکون کی بطور ٹیم سب سے بڑی جیت ہے۔

ہمایوں کیلئے غلطی کی گنجائش نہیں تھی اور انھوں نے اس چانس کا بھرپور فائدہ اٹھایا فلم کے سپر ہٹ ہونے کے بعد فلم بین خاص طور پر خواتین اُن کے اِس کردار سے ”جُڑ“ گئے ہیں۔ 

ہمایوں سعید کو ”انتہا “کے بعد اب اتنا پاور پیک کردار ملا ہے جس میں مارجن بھی بہت تھا لیکن چیلنج بھی بڑا کیونکہ وہ ہی اتنی بڑی فلم کے ایک اکلوتے ہیرو ہیں ان کو پنجاب کا ”بمشکل ایم اے پاس “گھبرو جوان نظر بھی آنا تھا اور ساتھ میں انگلش اردو دونوں ہی بولنی تھی۔

انھوں نے اپنا اسٹائل اور لہجہ سب کچھ فلم کے حساب سے بدلنے کی کوشش کی ہے۔ ہمایوں کو یہاں ڈائریکٹر ندیم بیگ اوررائٹر خلیل الرحمن کی بھی بھر پور رہنمائی حاصل تھی ۔

ہمایوں کیلئے غلطی کی گنجائش نہیں تھی اور انھوں نے اس چانس کا بھرپور فائدہ اٹھایا فلم کے سپر ہٹ ہونے کے بعد فلم بین خاص طور پر خواتین اُن کے اِس کردار سے ”جُڑ“ گئے ہیں۔ 

ہمایوں کو اس فلم سے”فواد‘کھگا ‘ کا نام بھی مل گیا ویسے ہی جیسے سلمان کو ’’پریم‘‘ اور شاہ رخ کو ’’راج‘‘ اور ’’راہول‘‘ اور ہریتھک کو” روہت“ ملا ہوا ہے یا بہروز صاحب کو ”قباچہ“ یا سہیل صاحب کو پہلے ”مَلِک“ ملا اور اب ”عزیزی“۔

کردار مل گیا ،نام مل گیا ، کامیابی مل گئی لیکن صرف بہترین اداکار کا ایوارڈ شاید اگلے سال بھی ہمایوں سے روٹھ جائے کیونکہ ’’نامعلوم افراد 2‘‘ کے فہد مصطفی تو ہمایوں سے بہت پیچھے ہیں لیکن جاوید شیخ ایک بار پھر شکیل صاحب کے کردار میں رچ بس گئے۔

ہاں اگر شیخ صاحب کا مقابلہ اسی فلم کے سہیل احمد صاحب سے ہوگیا تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

ایوارڈ اگر بہترین اداکار کا نہیں ملے گا تو کیا ہوا بہترین فلم کا ایوارڈ تو تقریبا پکا ہی ہے ، پھر جتنی تالیاں اور سیٹیاں فواد کھگا کے بھر م اور اسٹائل پر ملیں وہ کیا کم ہیں اوپر سے ”گڈ کوئسٹن“ اور ” ہیلپ می دردانہ“پھر ”اسپورٹس مین اسپرٹ “ جیسے مکالمے ملیں۔

فلم کے سیٹ کا منظر — فوٹو بشکریہ فیس بک 

کچھ اگر کمی رہ گئی تو فلم کے شروع میں گھوڑے پر زوردار انٹری پھر ہیر کے مزار پر انٹری پھر ریستوران میں مہوش اور اظفر کو چیلنج دے کر باہر نکلنے کا سین پھر دی اینڈ سے تھوڑا پہلے حویلی سے باہر نکلنے کا سین ہر” انٹری “اور”ایگزٹ “ پر فواد کھگا نے اپنے اسٹائل اور بھرم کی مہر لگائی اور خوب تالیاں اور سیٹیاں بجوائیں۔

فلم کا اسکرین پلے اور مکالمے اپنی مثال آپ ہیں اور فلم دیکھ کر آپ جب باہر نکلتے ہیں تو وہی مکالمے جو آپ کے دل میں بس جاتے ہیں ایک بار پر لبوں پر آ کر پھسل کر دل میں اترنے کا کھیل مسلسل کھیلتے رہتے ہیں۔

اس فلم کی کاسٹنگ اتنی موزوں ہے کہ اس بار فلم ایوارڈز والوں کو” کاسٹنگ “ کا الگ سے ایوارڈ رکھنا چاہیے کیوں کہ ہر اداکار اپنے کردار کی انگوٹھی میں نگینہ کی طرح فِٹ بیٹھا ہے۔

خلیل الرحمن قمر کے مکالمے جادو ہیں جن کا سحر آپ کو جکڑ لیتا ہے اسی لیے ہمارے پاس کوئی الفاظ نہیں جن سے اُن کے لکھے گئے مکالموں کی تعریف ممکن ہوں۔

چاہے فیصل آباد کا رنبیر سنگھ کا مکالمہ ہو یا فلم اسٹار رانی کی یاد، یو تھنک ویری ڈیپاگر زوردار ہنسی نکلواتی ہے تو ہیر مانگنے کے لیے رانجھا بننے کی شرط فلم دیکھنے والوں کو جگا دیتی ہے ،کپڑوں کا برانڈ اوررشتوں کا حسب نسب کا مکالمہ ہو یا زبان اور محبتوں پر بیبو جی کی مکالمے سب دل چیر دیتے ہیں۔

پھر شروع ہوتی ہے ہیلپ می دردانہ سے جڑے مکالموں کی پوری سیریز جن میں ایک بھی مکالمہ پھیکا نہیں پڑتا۔ یہاں پر دادا جی اور بیبو جی سے شفیق احمد تک زوردار مکالموں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے لیے ایک الگ تحریر بنتی ہے ان کو لکھنے سے زیادہ سننے اور سینما میں دیکھنے میں مزا ہے۔

اس فلم کی کاسٹنگ اتنی موزوں ہے کہ اس بار فلم ایوارڈز والوں کو” کاسٹنگ “ کا الگ سے ایوارڈ رکھنا چاہیے  کیوں کہ ہر اداکار اپنے کردار کی انگوٹھی میں نگینہ کی طرح فِٹ بیٹھا ہے۔

فلم میں مہوش حیات نے اپنی اداکاری سے سب کو حیران کردیا ہے اوت انھوں نے کراچی کی ماڈرن لڑکی کا کردار کیا ہے جس کے لیے ہمایوں کی” محبت“ نہیں شہری بابو اظفر کی ”انڈر اسٹینڈنگ“ ہی شادی کیلئے کافی ہوتی ہے۔

 مہوش حیات ” من جلی“ اور ”دل لگی“ سے بھی خوبصورت اس فلم میں نظر آئی ہیں۔”جوانی پھر نہیں آنی“ تو الگ قسم کی ملٹی اسٹار ر فلم تھی لیکن اِس فلم سے وہ اگلے سال تمام ایوارڈ جیتنے کے لیے سب سے آگے ہیں بلکہ بہت آگے۔

جی ہاں ابھی تو ستمبر ہے اور چار مہینے باقی ہیں اور اپنے الفاظ سنبھال کر بھی رکھنے چاہیے لیکن بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ”مہوش حیات“ کا ہی ہوگا۔

فلم میں مہوش حیات اور ہمایوں سعید کے رقص کا منظر — فوٹو بشکریہ فیس بک

فلم ہمایوں سے زیادہ مہوش کی فلم ہے ماڈرن ہیر کی فلم ہے۔کھیت، حویلی، بارش، سوئمنگ پول، شادی، ڈانس، ڈسکو، ڈیری فارم اورجاگنگ ٹریک سمیت مہوش جہاں جہاں نظر آئی انھوں نے اس لوکیشن کی رونق بڑھائی۔

ہر منظر اور گانے میں وہ بہت حسین اور کردار میں ڈوبی ہوئی نظر آئیں ہیں اور ہر لباس ان پر دلفریب دکھائی دیا یہی نہیں محبت اور نفرت کے ایک ساتھ ایسے تاثرات دینا ناممکن نہیں تو مشکل بہت ہے۔

فلم میں احمد علی بٹ بھی ہیں اور عروہ حسین بھی ، فلم میں کامیڈی کا اتنا زیادہ مارجن اتنا تو نہیں لیکن احمد جہاں جہاں آئے دیکھنے والوں کو خوب پسند آئے۔

احمد بٹ کے رقص نے بھی سب کو حیران کردیا دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا یہ رقص فلم کے سب گانوں سے تو مقبول ہوا ہی ’’نامعلوم افراد 2‘‘ کے آئٹم نمبر پر بھی بڑا بھاری پڑا اور مقبولیت میں اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

عروہ تو اب ہمیشہ کیلئے”دردانہ“ بن گئیں ہیں ان کو معاون اداکارہ کا ایوارڈ تو ملے گا ہی لیکن زندگی بھر ڈسکس کیے جانے والا کردار بھی مل گیا۔

اب فلم کے تین بڑے سرپرائز کی بات ہوجائے ایک سینئر ٹی وی آرٹسٹ اور میزبان نوید شہزاد صاحبہ جنھوں نے مہوش کی ”بیبو جی“ کا کردار نبھایا ہے۔

فلم میں موسیقی کے لیے چار میوزک ڈائریکٹرز نے کام کیا ہے ایک شیراز اُپل، دوسرے شانی ارشد، تیسرے ساحر علی بگا اور چوتھے احمد علی بٹ۔

نوید شہزاد صاحبہ کی یہ پہلی فلم ہے انھوں نے کافی عرصہ ٹی وی پر بہت چُن کر کام کیا اور اِس فلم میں ایسی دبنگ انٹری دی کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے  اور فلم دیکھنے کے بعد سب کی خواہش ہے کہ وہ اور کام کریں اتنا ہی اچھا کام کریں۔

دوسری سرپرائز انٹری ہے سب کے ”عزیزی“ سہیل احمد صاحب جو ہمایوں کے دادا بنے ہیں جب کہ سہیل احمد نے ٹی وی پر کئی یادگار کردار ادا کیے۔ 

لیجنڈری اداکار سہیل احمد عزیزی فلم میں اپنے کردار کی تیاری کرتے ہوئے — فوٹو بشکریہ فیس بک

 انھوں نے جوانی میں ہی بڑھاپے کے کئی کردار نبھائے جس میں فشار کے اینگری ینگ مین اسٹوڈنٹ لیڈر سمیت متعدد کرداروں کو بھلا کون بھول سکتا ہے اور لگتا ہے یہی ہے کہ اس بار ان کا فلمی کردار بھی یادگار ہوجائے گا۔

تیسرا سرپرائز ہے وسیم عباس کا جنھوں نے 20 سال بعد کسی فلم میں کام کیا ہے تاہم ان کا کردار ٹریلر سے بھی سامنے نہیں آیا تھا۔

ان تینوں اور احمد علی بٹ کے کردار آپ کو ہمیشہ یاد رہیں گے اور جب آپ فلم دیکھ لیں گے آپ کو معلو م ہوجائے گا کہ ان کی اتنی تعریفیں کیوں کی گئیں ہیں۔

فلم کی عکاسی سینئر ڈی او پی سلمان رزاق کی ہے جنھوں نے لگتا ہے کیمرے کے ساتھ دیکھنے والوں کی آنکھیں جمادی اور ہر فریم دیکھنے والا اور رنگوں سے بھرا ہے جس کیلئے آرٹ ڈائریکشن اور پروڈکشن ڈیزائن والوں نے دل سے کام کیا ہے۔

ایڈیٹنگ اور بیک گراؤنڈ اسکور کا تو کیا کہنا ،شانی ارشد کا کمپوز کیا ہوا بیک گراؤنڈ میوزک ٹیزر میں بھی بہت ہی عمدہ تھا اور ٹریلر میں بھی اس نے کمال دکھایا اور فلم میں تو دھمال ہی کردیا۔

فلم میں موسیقی کے لیے چار میوزک ڈائریکٹرز نے کام کیا ہے ایک شیراز اُپل، دوسرے شانی ارشد، تیسرے ساحر علی بگا اور چوتھے احمد علی بٹ۔

گانے ایسے ہیں جو فلم کی صورتحال کے لحاظ سے بنائے گئے ہیں اور چھ کے چھ گانے مقبول ہوئے لیکن واقعی کسی نے خوب لکھا ہے کہ رانجھا والا گانا اگر سکھ ویندر سنگھ گاتے تو گانے کا لیول ہی کچھ اور ہوجاتا۔

’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ بڑے پردے کی اور سنیما میں دیکھنے والی فلم ہے اس میں آج کل کے ٹی وی ڈراموں یا سوپ جیسی کوئی بات نہیں ہاں لیکن اِس فلم میں اُس دور کے ڈراموں کی کچھ جھلک ضرور نظر آتی ہے جب پاکستانی ڈرامہ معیار اور گلیمر میں بالی وڈ کی بڑی فلموں سے بھی بلند تھا۔

فلم کے ڈائریکٹر ندیم بیگ نے اپنی سپر ڈوپر ہٹ فلم ”جوانی پھر نہیں آنی“سے بالکل مختلف کام کیا ہے، کامیابی کے باوجود انھوں نے جلدی نہیں کی اور پہلے سے زیادہ پسینہ اور پیسہ بہا کر اور بہتر کام کیا ہے۔ 

دائین جانب فلم کے ہدایت کار ندیم بیگ  اور بائیں جانب ڈی او پی سلمان رزاق سین فلماتے ہوئے — فوٹو فیس بک

ہر کردار، مکالمے، گانے، رقص سے لیکر ٹیزر، ٹریلر اور ریلیز تک سب اصل امتحان تو فلم کے کپتان ”ڈائریکٹر “ کا ہی ہوتا ہے اور وہی کامیاب ہوتا ہے وہی ناکام۔

 فلم کے پوسٹر کی طرح فلم میں بھی ہمایوں کی بھینس پر ایک انٹری تو ہونی چاہیے تھی۔

فلم کا ہٹ ہونا کتنا ہونا ان سب کا فیصلہ تو عوام کرتے ہیں اس فلم کا نتیجہ بھی آئے گا لیکن ابھی عوام نے فیصلہ سنادیا ہے کہ وہ فلم ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ دیکھنے سینما جائیں گے ، فیملی کے ساتھ جائیں گے اور بار بار جائیں گے روک سکو تو روک لو۔

فلم کی کہانی میں جھول ہیں لیکن کوئی بھی چیز مکمل کہاں پھر باتیں بنانا آسان لیکن فلم بنانا بہت مشکل اور ڈھائی گھنٹے میں سب کچھ سمونا بھی ناممکن ہوتا ہے۔

 پھر بھی کچھ تحفظات بلکہ ایک دیکھنے والے کی خواہشات کہہ لیں تو بہتر ہوگا (ممکن ہے فلم دیکھتے ہوئے کچھ ”مس“ ہوگیا ہو یا دوسرے ان پوائنٹس سے اتفاق نہ کریں تو غلطی معاف کریں ) مثلا ایک کریکٹر ”حماد کھگا“ کو بھی صرف ”اسٹیبلش“ کیا گیا۔

امل بیبو جی کا حکم مان کر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے ہاں کرتی ہے تو بعد میں بیبو جی سے شکوہ بنتا نہیں تھا۔

برانڈنگ یا اشتہار اس وقت فلم میکرز کی مجبوری ہیں لیکن وہ تین سین اس طرح نہیں ”بُنے “ گئے جس طرح ہونے چاہیے تھے خاص طور پر ہیر کے مزار کا پتا تواشتہار سے کوسوں دور ہونا چاہیے تھا۔

اظفر کے گھر والے تو باہر تھے لیکن عروہ کی ہمایوں سے رشتے داری کونسی والی تھی؟ ہیلپ می دردانہ والے معاملے میں کوئی دردانہ کی کلا س کیوں نہیں لیتا۔

دردانہ اور شفیق کا بھی تو کوئی دی اینڈ بنتا تھا۔

امل کو بار بار اسٹیبلش کیا گیا ہے کہ وہ فیصلے نہیں بدلتی لیکن فلم میں در حقیقت امل ہی ہوتی ہے جس کا فیصلہ بار بار بدلتا ہے۔

 ٹوئنٹی فور سیون کے گانے میں احمد علی بٹ کے ساتھ عروہ کی جگہ کوئی بھی مہمان اداکارہ ہوسکتی تھی ) بعد میں عروہ ویسے ہی انٹری دیتی جیسے دلہا اور دلہن دیتے ہیں۔

 فلم کے پوسٹر کی طرح فلم میں بھی ہمایوں کی بھینس پر ایک انٹری تو ہونی چاہیے تھی۔

فلم میں پرسنل فیورٹ نکالنا آسان نہیں تھا لیکن فلم دیکھنے کے بعد سب سے زیادہ سرپرائز وسیم عباس کے کردار ، احمد علی بٹ کے رقص اور سب اداکاروں کے بہترین مکالموں نے کیا۔

فیورٹ سین کی بات ہو تو امل کی ایئر پورٹ پر انٹری کے ساتھ ہمایوں کی ہیر کے مقبرے پر”انٹر کٹنگ “اور بیک گراؤنڈ میں رانجھا والے گانے کی میوزک کا مزا ہی کچھ اور تھا۔

دوسرا جب بیبیو جی امل کے کراچی آنے کے بعد پورے خاندان خاص طور پر اپنے دیور صاحب کا استقبال کرتی ہیں تو خاندان کی محبت میں خوشی کے آنسو دیکھنے والوں کی آنکھوں سے بھی چھلک جاتے ہیں۔

نوٹ:

1۔۔۔ ہر فلم بنانے والا فلم پر باتیں بنانے والے سے بہتر ہے ۔۔

2۔۔۔ فلم سینما پر دیکھیں ضرور ،کیونکہ فلم سینما کیلئے ہی بنی ہے۔ آپ کے ایل ہی ڈی یا موبائل فون یا لیپ ٹاپ کیلئے نہیں۔۔

3۔۔۔ فلم کا ریویو صرف ایک فرد کا تجزیہ ہوتا ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح بھی ہوسکتا ہے اور اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ۔

4۔۔۔ فلم کی کہانی میں جھول لازمی ہوتے ہیں کیونکہ حقیقت میں تو ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال کیا ڈھائی سو سال تو کیا،ڈھائی سال کیاِڈھائی مہینے کیا،دو گھنٹے اکتیس منٹ بھی نہیں سماسکتے۔

5۔۔۔ کہانی میں یا ایڈیٹنگ میں” جمپ“ ہوگا توہی ”کٹ “ہوگا۔

6۔۔۔ غلطیاں صرف فلم بنانے والے سے نہیں ہم سے بھی ہوسکتی ہے آپ سے بھی ۔۔تو آپ اگر کوئی غلطی دیکھیں اس کی نشاندہی ضرور کریں(شکریہ)۔

مزید خبریں :