ابلاغ سے ابلاغیات تک

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے، اس کے ذمہ دار ہمارے سماج میں ہر شعبے میں پائے جانے والے رائے عامہ کے رہنما ہیں جن کی رائے کو میڈیا کے پالیسی ساز تیار کرتے ہیں، ہمارے رہنما بیان دیتے ہیں اور اگلے روز ان کے میڈیا منیجرز کی طرف سے بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

ابلاغ عامہ میں ہم ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں ’’فریم آف ریفرنس‘‘، اس کو سادہ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ معنی سننے والے کے دماغ میں ہوتا ہے، وہ اس لفظ سے اپنے فریم آف ریفرنس کے مطابق معنی اخذ کرتا ہے، ہمارے یہاں زیادہ تر روزمرہ کے جھگڑوں، ناراضی اور شادی بیاہ میں ناکامی کی بنیادی وجہ ہی ابلاغ کے عمل میں ناکامی ہے، ہمیں غور کرنا ہو گا کہ کسی لفظ یا فقرے میں معنی حقیقت میں کہاں واقع ہے؟

یہ مختلف مقامات پر ہوسکتاہے مثلاً سننے والے کے ذہن میں یا بولنے والے کے دماغ میں، جب ہم کوئی تحریر پڑھتے ہیں تو ہم اپنے فریم آف ریفرنس کے مطابق اس کا مفہوم اخذ کرتے ہیں، اس حوالے سے ’’کلیَنتھ بروکس‘‘ کا ایک نہایت دلچسپ مضمون موجود ہے جس کا عنوان ہے The Heresy of Paraphrase یعنی ’’بیان کی بدعت‘‘۔ اس مضمون میں برُوکس نے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’ہم کسی بھی بیان کو بیان نہیں کرسکتے، کیونکہ جب ہم اُسے بیان کرنے لگتے ہیں تو اس کے اصل معانی گم ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ معنی نہ تو تحریر کے مواد میں موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کی بناوٹ یعنی ساخت میں، بلکہ کسی تحریر کا معنی اِن دونوں یعنی تحریر کا مواد اور اس کی ساخت کے باہمی امتزاج سے متعین ہوتاہے‘‘، قرار دیاجائے گا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی لفظ، جملے، تحریر، علامت، غرض کسی بھی ابلاغ کا بنیادی طور پر کوئی معنی نہیں ہے۔ سب بیان معنی سے خالی ہو سکتے ہیں۔

تھامس فوسٹر اس حوالے سے اپنی کتاب ’ہاؤ ٹو ریڈ لٹریچر لائیک اَ پروفیسر‘ میں لکھتا ہے کہ کوئی تحریر جب بھی لکھی جاتی ہے تو اس کا لکھنے والا ہمیشہ کسی نہ کسی سماجی حیثیت کا حامل ہوتاہے، اس کی تاریخ، جغرافیہ، حالات، معاشرت، یہ سب اس کی تحریر پر اثرانداز ہوتے ہیں اور پڑھنے والا جو معنی لیتا ہے وہ اپنے فریم آف ریفرنس کے مطابق لیتا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ کمیونیکیشن یا ابلاغ کا عمل سو فیصد کسی طور پر نہیں ہو سکتا اور یہی بات ہمارے درمیان اختلافات کی اصل وجہ ہے، اسی لیے میں اپنے لیکچرز میں یہی کہتا رہا ہوں کہ کسی بھی مذہبی، سیاسی، لسانی، معاشرتی اور معاشی بحث میں نہ پڑیں، اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، خواہ مخواہ خوبصورت رشتوں میں دراڑ پڑ جاتی ہے اور حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوتا۔

کچھ عرصہ بعد جب اس معنی کا درست ابلاغ ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا ہم غلط تھے، کاش ہم نے اس وقت اس سے جھگڑا نہ کیا ہوتا، ہم نے اسی کاش سے بچنا ہے، میری کتاب ابلاغ سے ابلاغیات تک میں سماج کے ان پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جو ان کاشوں سے ہمیں بچاتے ہیں، اگر ہم معنی کا ادراک کر لیں تو سارے مسائل ہی حل ہو جائیں لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے تو پچھتاووں سے بچنے اور سماج میں برداشت کا عنصر مستحکم کرنے کے لیے ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی کیونکہ پاکستانی سماج میں تقسیم کا عمل بہت خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، اس کو تحمل اور برد باری کے ساتھ کم بھی کرنا ہے اور بلا وجہ کی سیاسی اور مذہبی بحثوں سے گریز بھی کرنا ہے، اسی میں ہماری بقا ہے۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔