پاکستان
Time 07 ستمبر ، 2017

سندھ ہائیکورٹ کا آئی جی سندھ کو عہدے پر برقرار رکھنے کا حکم

سندھ ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ کو عہدے پر برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ کی تقرری برقرار رکھتے ہوئے 30 مئی کو محفوظ کردہ فیصلہ سنا دیا جب کہ عدالت نے پولیس ایکٹ 1861کے مطابق آئی جی کی تقرری برقرار رکھی۔

عدالت نے  اے ڈی خواجہ کو مستقل ذمہ داری سنبھالنے کا حکم دیتے ہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ سندھ پولیس کی کمانڈ آئی جی سندھ کے پاس ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ  اے ڈی خواجہ عہدے پر کام کرتے رہیں اور اگر کوئی افسر آئی جی سندھ کے علاوہ کسی اور کا حکم مانے تو انہیں کارروائی کا اختیار ہے۔

 سندھ ہائی کورٹ نے 31 مارچ اور یکم اپریل کو سندھ حکومت کی جانب سے پولیس افسران کی تقرری و تبادلوں کے جاری کردہ 2 نوٹی فکیشن بھی کالعدم قرار دے دیے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق محکمے کی خودمختاری کے لئے کمانڈ آئی جی کے پاس ہونا ضروری ہے جب کہ آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹانے کے لئے قانونی طریقے کو فالو نہیں کیا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے فیصلے میں قرار دیا کہ پی ایس پی افسران سمیت ہر سطح کی تقرری وتبادلے کا اختیار آئی جی سندھ کے پاس ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ سندھ بزنس رولز 1986 میں آئی جی سندھ کی مدت ملازمت کا طریقہ کار موجود ہے، اگر آئی جی سندھ کو ہٹانا ضروری ہو تو وجوہات بتانا لازم ہیں۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ آئی جی سندھ کی تقرری وتبادلے کے لئے انیتا تراب کیس کو مدنظر رکھا جائے۔

عدالت نے سندھ اور وفاقی حکومتوں کو پولیس سے متعلق مزید قانون سازی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت آئی جی سندھ کی تقرری اور اختیارات سے متعلق رولز بنائے۔

عدالتی فیصلے کے بعد درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے تفصیلی احکامات دیے ہیں اور یہ فیصلہ پولیس ریفارمز کی جانب پہلا قدم ہے۔

وکیل نے کہا کہ عدالت نے پولیس ایکٹ 1861 برقرار رکھا اور یہ ایکٹ بھی آئی جی کی خودمختاری اور کمانڈ کو تقویت دیتا ہے جب کہ ٹرانسفر پوسٹنگ آئی جی سندھ کا اختیار ہے۔ 

خیال رہے کہ آئی جی کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار وفاق کے پاس ہے لیکن صوبائی حکومت نے اختلافات کے باعث اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد سندھ ہائیکورٹ نے انہیں ہٹانےکا حکم 3 اپریل کو معطل کیا تھا۔

مزید خبریں :