بلاگ
Time 09 ستمبر ، 2017

مریم نواز بمقابلہ بے نظیر بھٹو

سابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں انٹرویو کے دوران کہا کہ مریم نوازمیاں نواز شریف کی بیٹی ہیں وہ بچی ہیں اور بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق مریم نواز لیڈر نہیں ہیں دوسرے لفظوں میں مریم نواز میں قائدانہ صلاحیت کی کمی ہے اور انہیں سیاست میں لیڈر بننے کے لئے اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوگا۔ 

چودھری نثار کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے دس یا گیارہ سال بعد سیاست میں حصہ لینا شروع کیا، انہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگوائیں اور انہیں قید میں رہنا پڑا پھر کہیں جاکر وہ ایک سیاستدان بنیں اور حکومت سنبھالی۔ اس لیے بے نظیر بھٹو اور مریم نواز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

چودھری نثار علی خان نے بے نظیر بھٹو اور مریم نواز میں تو زمین آسمان کا فرق نکال لیا لیکن میرے خیال میں چودھری صاحب نے ان دونوں کی ذہانت اور سیاسی سوجھ بوجھ کا فرق کچھ زیادہ ہی بیان کر گئے۔ چودھری نثار کو تو معلوم ہو گا ہی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی بے نظیر کو سیاسی تربیت کا آغاز کردیا تھا۔ وہ جہاں جاتے بے نظیر بھٹو ان کے ساتھ ہوتیں ، بھٹّو جانتے تھے کہ ان کے بعد بے نظیر ہی ان کی جانشین بن سکتی ہیں۔

ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی لگنے کے بعد بے نظیر بھٹو سیاسی میدان میں اتریں تو لوگوں کو بے نظیر کی شکل میں ذوالفقار علی بھٹو نظرآیا، بے نظیر نے اپنے والد کی سیاسی تربیت کو اپنی ذہانت، قابلیت اور دانشمندی سے چارچاند لگا دیے ۔ انہوں نے بھٹو کی سیاست سے ہی اپنی سیاسی سفر شروع کیا اور وہ ایک کامیاب سیاستدان بن کردنیا میں اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا منوایا۔

چودھری نثار یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ مریم نواز کی سیاسی تربیت میاں نواز شریف کر رہے ہیں اور ان میں بھی ایک ذہین سیاستدان کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر کسی وجہ سے وہ یہ نہیں ماننا چاہتے تو ہم بتا دیتے ہیں کہ 12 اکتوبر 1999 کو جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویر مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور میاں نواز شریف ، ان کے بیٹے حسین نواز اور شہباز شریف کو گرفتار کرلیا گیا تو وہ بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز ہی تھیں جنہوں نے ان کی حمایت میں بھرپور تحریک چلائی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد میاں نواز شریف کی انتخابی مہم بھی مریم نواز ہی چلاتی رہی ہیں۔

 مریم نواز کو عملی سیاست میں قدم رکھے 18 سال بیت گئے ہیں اور اس دوران میاں نواز شریف نے مریم نواز کو ہر سیاسی معاملے میں اپنے ساتھ ہی رکھا ہے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ سیاست میں اگر ان کا کوئی جانشین ہو سکتا ہے تو وہ مریم نواز ہی ہیں۔

سیانے کہتے ہیں کہ مچھلی کے بچے کو تیرنا خود ہی آ جاتا ہے اور اسے کسی سے پیراکی سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں مہارت کے لیے ضرور اسے اپنے بڑوں سے تیکنیک سیکھنی ہوتی ہے۔ 1999 میں میاں نواز شریف کی حکومت ختم کرکے ان کو قید کرنے پر مریم نواز جس طرح سیاسی میدان میں اتریں تھیں بلکل اسی طرح نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوانے اتری ہیں۔ میاں صاحب نے انہیں سیاست اور حکومت کے داو پیج اچھی طرح سکھا دیے ہیں اور وہ سیاست کے بپھرے دریا میں بخوبی تیرنا جانتی ہیں۔

ہمیں چودھری نثار ہی کیا دیگر سیاستدانوں کی یہ منطق ہرگز سمجھ نہیں آتی کہ جیل کی ہوا کھائے بغیر کوئی سیاستدان کس طرح بن سکتا ہے؟ اگر جیل سیاست سکھانے کی اچھی تربیت گاہ ہے تو تمام مجرم جیل سے بہترین سیاست دان بن کر نکلتے۔

 دنیا بھر میں کہیں بھی جیل جانا کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی اور نا ہی یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی نے جیل نہیں کاٹی تو وہ سیاست دان نہیں بن سکتا۔ بلکہ یہ بات اس کے بلکل برعکس ہے یعنی اگر کسی کا کرمنل ریکارڈ ہو تو اسے سیاست میں آنے کی اجازت ہیں نہیں ہوتی۔ ہاں اگر حکومت انتقامی کارروائی کرتے ہوئے قید میں ڈال دے تو اسے سیاسی تجربے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

 ہم نے تو نہیں سنا کہ امریکا یا دنیا کی کسی بھی بڑے سے بڑے جمہوری ملک کے صدر کو سیاست میں آنے کے لئے جیل جانا پڑا۔ اگر اچھا سیاستدان بننے کے لئے جیل جانا ضروری تھا تو چودھری نثارعلی خان کو بھی جیل جانا چاہئے تھا۔

عمران خان ، شیخ رشید احمد سمیت کچھ دیگر سیاستدانوں کی منطق بھی میری سمجھ سے باہر ہے کہ ماں یا باپ سیاست دان ہیں تو بچے کیوں سیاستدان بن جاتے ہیں ؟ میں نے تو کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ ماں یا باپ ڈاکٹر، انجینئر، صنعتکار، فوجی، بیوروکریٹ یا کسی دیگر شعبے سے وابستہ ہوں تو ان کے بچے ڈاکٹر، انجیننئر، صنعتکار یا اپنے والدین کے شعبے کو کیوں منتخب کر لیتے ہیں؟ ان کے نقش قدم پر کیوں نکل پڑتے ہیں؟ تو پھر سیاست دانوں کے بچے سیاسی میدان میں کیوں نہیں آ سکتے ؟ ہاں یہ بات درست ہے کہ والدین کو اپنے بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا اختیار نہیں اور وہ جس شعبے کو چاہیں منتخب کر سکتے ہیں، لیکن اگر وہ اپنے والدین کی طرح ٹیچر، ڈاکٹر وغیرہ کی طرح سیاستدان بننا چاہتے ہیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

کیا کبھی کسی نے یہ کہا کہ امریکی سینیٹر پریسکوٹ بش کے بیٹے جارج ڈبلیو بش سیاست میں کیوں آئے اور امریکا کےصدر کیوں بنے؟ یا بش سینئر کے بیٹے جارج بش جوںیئرنے سیاسی ذندگی کیوں اپنائی اور وہ بھی ٹیکساس کے گورنر اور پھر امریکا کے صدر جبکہ دوسرا بیٹا جیف بش فلوریڈا کا گورنر کیوں بنا؟ یہ دونوں سیاست میں کیوں آئے؟ ، بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی بیٹی اندار گاندھی سیاست میں کیوں آئیں اور نا صرف وہ وزیراعظم بنیں بلکہ ان کا بیٹا راجیو گاندھی بھی وزیراعظم بنا۔ ہمارے ملک میں اگر کسی سیاستدان کا بھائی، بہن، بیٹا یا بیٹی سیاست میں آنا چاہیں تو انہیں روکنے کی کوششیں کیوں کی جاتی ہیں؟

مریم نواز کو نواز شریف کا جانشین بنتے ہوئے دیکھ کر چودھری نثارعلی خان کو اپنی فکر تو نہیں ہوگئی ہےکہ مسلم لیگ نواز میں ان کی سیاست زندگی ختم ہوجائے گی۔ یا یوں کہوں کہ ان کے نزدیک ابھی تو پانی سر تک آیا ہے کہیں ایسا نا ہو کہ پھر سر سے ہی گزر جائے اور ان کی سیاسی ناو ڈوب جائے ۔

 چودھری نثار یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ان کی سیاسی بقا مسلم لیگ نواز سے وابستہ ہے اور اگر انہوں نے پارٹی تبدیل کرنے یا اپنی جماعت بنانے کی کوشش کی تو یہ اس کے ان کی سیاست پر نہایت منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔ 2013 کے عام انتخابات میں چودھری نثار این اے 52 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے اور جب انہوں نے پنجاب کے صوبائی حلقے پی پی 7 راولپنڈی سے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا تو وہ تحریک انصاف کے امیدوار سے ہار گئے تھے اور انہیں اپنی سیاسی حیثیت کا انداذہ اس نتیجے سے لگا لینا چاہئے۔

 چودھری نثار علی خان کے ذاتی خیالات اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مریم نواز ایک قابل سیاست دان بن کر ابھری ہیں اور انہوں نے اپنے والد سے حکومت کرنا بھی بخوبی سیکھ لیے ہیں۔


سینئر صحافی رئیس انصاری جیو نیوز کے لاہور میں بیورو چیف ہیں اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔